(سیدنا) جعفر (طیار) رضی اللہ عنہ)
(سیدنا) جعفر (طیار) رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
ابن ابی طالب۔ ابو طالب کا نام عبد مناف بن عبدامطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی۔ قرشی ہیں ہاشمی ہیں۔ رسول خدا ﷺ کے چچازاد بھائی ہیں اور حضرت علی بن ابی طالب کے حقیقی بھائی ہیں۔ یہ عفر طیار (٭طیار کے معنی بہت اڑنے والا اس لقب کی وجہ آئندہ بیان سے معلوم ہو جائے گی کہ جنت میں فرشتوں کے ہمراہ اڑا کرتے تھے) (کے لقب سے مشہور) ہیں۔ سیرت میں اور صورت میں سب سے زیادہ رسول خدا ﷺ کے مشابہ تھے۔ اپنے بھائی علی کے اسلامس ے کچھ ہی پیچھے اسلام لائے روایت ہے کہ ابو طالب نے ایک مرتبہ بھی ﷺ کو اور علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ یہ دونوں نما ز پڑھ رہے ہیں علی رضی اللہ عنہ آپ کی داہنی طرف ہیں تو ابو طالب نے جعفر سے کہا کہ تم بھی اپنے چچا کے بیٹے کے پہلو میں نماز پڑھ لو اور تم ان کی باتیں طرف کھڑے ہو۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ یہ اکتیس آدمیوں کے بعد اسلام لائے اور یہ خود بتیسویں شخص تھے یہ ابن اسحاق کا قول ہے انھوں نے دو ہجرتیں کیں۔ ایک ہجرت حبش کی طرف اور دوسری ہجرت مدیہ کی طرف۔ ان سے ان کے بیٹے عبداللہ نے اور ابو موسی اشعری نے اور عمرو بن عاص نے روایت کی ہے۔ رسول خدا ﷺ ان کو ابو المساکین کہا کرتے تھے۔ یہ حضرت علی سے دس برس بڑے تھے اور ان کے بھائی عقیل ان سے دس برس بڑے تھے اور ان کے بھائی طالب عقیل سے دس برس بڑے تھے۔ جب انھوں نے حبش کی طرف ہجرت کی تو وہاں نجاشی کے پاس رہے یہاں تک کہ جب رسول خدا ﷺ فتح خیبر کے بعد لوٹِ تو یہ (حبش سے واپس ہو کر) رسول خدا ﷺ کے کو ملے حضرت نے انھیں لپٹا لیا اور ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان میں بوسہ دیا اور فرمایا میں نہیں جانتا کہ مجھے (اس وقت) کس بات کی زیادہ خوشی ہے آیا جعفر کے آنے کی یا فتح خیبر کی۔ انھیں رسول خدا ﷺ نے مسجد اقدس کے پہلو میں رہنے کو جگہ دی۔ ہمیں اسماعیل بن عبید اللہا ور کئی لوگوں نے اپنی سند سے ابو یسی تک خبر دی وہ کہتے تھے ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں عبدالوہاب ثقفی نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں خالد حداء نے عکرمہ سے انھوں نے ابوہریرہ سے نقل کر کے خبر دی کہ وہ کہتے تھے بعد رسول خدا ﷺ کے کسی نے (٭عرب میں یہ محاورہ بہت رائج ہے کہ فلاں شخص سے بہتر کوئی ونٹ پر سوار نہیں ہوا فلاں شخص سے بہتر کسی پر آفتاب نے طلوع نہیں کیا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس سے بہتر روئے زمیں پر کوئی نہیں ہے) جوتی نہیں پہنی اور نہ سواری پر سوار ہوا اور نہ کسی اونٹنی پر بیٹھا جو جعفر سے افضل ہو۔ اسماعیل بن عبید اللہ کہتے تھے ہمیں ابو عیسی نے خبر دی وہ کہتے تھے ہیں علی بن حجر نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں عبداللہ بن جعفر نے علاء ابن عبالرحمن سے انھوں نے اپنے والد سے انھوں نے ابوہریرہ سے نقل کر کے خبر دی کہ وہ کہتے تھے رسول خدا ﷺ فرماتے تھے کہ میں نے جعفر کو دیکھا کہ وہ جنت میں فرشتوں کے ساتھ اڑ رہے تھے۔ ہمیں یحیی بن محمود بن سعد نے اجازۃ اپنی اسناد سے ابوبکر یعنی احمد بن عمرو بن ضحاک تک خبر دی وہ کہتے تھے ہم سے محزر بن سلمہ نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں عبدالعزیز بن محمد یزید بن عبداللہ بن الہاد سے اور محمد بن نافع بن عجیر سے انھوں نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت علی بن ابی طالبس ے نقل کر کے خبر دی کہ نبی ﷺ نے (ایک مرتبہ جعفر سے) فرمایا اے جعفر تم سیرت اور صورت میں میرے مشابہ ہو اور تم میری عترت میں سے ہو یعنی اسی گھر کے ہو جس گھر کا میں ہوں یہ حدیث قصہ طلب ہے۔ ہمیں ابو یاسر بن ابی حبہ نے اپنی سن سے عبداللہ بن احمد بن حنبل سے نقل کر کے خبر دی وہ کہتے تھے مجھ سے میرے والدنے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں ابو نعیم یعنی فضل بن دکین نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں فطر نے کثیر بن نافع نودے نقل کر کے خبر دی وہ کہتے تھے میں نے عبداللہ بن ملیل سے سنا وہ کہتے تھے میں نے علی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول خدا ﷺ فرماتے تھے کوئی اپنی مجھ سے پہلے ایسا نہں ہوا جس کو سات برگزیدہ رفیق اور وزیر نہ ملے ہوں اور مجھے چودہ ملے ہیں۔ حمزہ اور جعفر اور علی اور حسن اور حسین اور ابوبکر اور عمر اور مقداد اور حذیفہ اور سلمان اور عمار اور بلال (دو نام ا سروایت میں رہ گئے ہیں) ہمیں کئی لوگوں نے اپنی سند سے محمد بن اسمعیل (بخاری) سے نقل کر کے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں احمد بن ابی بکر نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں محمد بن ابراہیم ابن دینار یعنی ابو عبداللہ جہنی نے ابن ابیذیب سے انھوں نے سعید مقبری سے انھوں نے ابوہریرہ سے نقل کر کے خبر دی کہ وہ کہتے تھے میری یہ حالت تھی کہ شدت گرسنگی کیباعث سے میں اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیتا تھا اور میں لوگوں سے ایک ایک آیت پڑھتا پڑھتا تھا حالانکہ وہ آیت مجھے یاد ہوتی تھی محص اسی لئے کہ وہ شخص مجھے اپنے گھر لے جائے اور مجھے کچھ کھلائے جعفر بن ابی طالب مسکینوںکے لئے سب سے زیادہ اچھے تھے وہ مجھے اپنے گھر لے جائے تھے اور جو کچھ ان کے گھر میں ہوتا تھا مجھے کھلاتے تھے یہاں تک کہ (اگر کچھ نہ ہوتا تھا تو) وہ اس خالی کپی کو اٹھا لاتے تھے ہمیں گھی یا چربی رہتی تھی ہماس کپی کو پھاڑ ڈالتے تھے اور جو کچھ اس میں ہوتا تھا اس کو چاٹ لیتے تھے۔ ہمیں ابن جعفر یعنی عبید اللہ بن احمد بن علی بغدادی نے اپنی سند سے یونس بن بکیر تک خبر دی وہ ابن اسحاق سے روایت کرتے تھے کہ انھوں نے کہا مجھ سے محمد بن جعفر بن زبیر نے بیان کیاوہ کہتے تھے کہ رسول خدا ﷺ عمرہ قضا سے ماہ ذبیحہ میں مدینہ آئے اور مدینہ میں کچھ دنوں قیام فرمانے کے بعد آپ نے جمدی سن۸ھ میں غزوہ موتہ کے لئے لشکر بھیجا وہ کہتے تھے ہمیں محمد بن جعفر نے عروہ سے نقل کر کے خبر دی وہ کہتے تھے کہ غزوہ موتہ میں بہت سخت لڑائی ہوئی یہاں تک کہ زید بن حارثہ شہید ہوگئے بعد ان کے جعفر طیار نے جھنڈا لیا اور لڑِ یہاں تک کہ وہ بھی شہید ہوگئے۔ وہ کہتے تھے ہم سے ابن اسحاق نے بیان کیا وہ کہتے تھے مجے یحیی بن عباد بن عبداللہ بن زبیر نے اپنے والد سے نقل کر کے خبر دی وہ کہتے تھے مجھ سے میرے والد نے یعنی میری مرضعہ کے شوہر نے جو بنی مرہ بن عوف کے خاندان سے تھے بیان کیا وہ کہت یتھے واللہ میں گویا اب بھی جعفر بن ابی طالب کی طرف دیکھ رہا ہوں جب وہ غزوہ موتہ میں اپنے گھوڑے سے گرے اور انھوںنے (غصہ میں) اس گھوڑے کے پیر کاٹ ڈالے بعد اس کے آگے بڑھے یہاں تک کہ شہید ہوگئے ابن اسحاق کہتے تھے اسلام میں یہ سب سے پہلے شخص ہیں جنھوں نے گھوڑے کے پیر کاٹے جب لڑائی ہو رہی تھی تو جعفر کے دونوں ہاتھ کٹ گئے اور جھنڈا انھیں کے پاس رہا انھوں نے اس کو پھیکا نہیں (بلکہ اس کو دانتوں سے پکڑ لیا) رسول خدا ھ فرماتے تھے کہ اس کے عوض میں اللہ نے انھیں دو پر دیے ہیں جن سے وہ جنت میں اڑتے پھرتے ہیں جب یہ شہید ہوگئے تو ستر سے کچھ اوپر زخم تلوار اور نیزہ کے ان کے بدن میں دیکھے گئے یہ سب زخم ان کے سامنے والے حصہ جسم میں تھے بعض لوگ کہتے ہیں کہ پچاس سے کچھ اوپر زخم تھے مگر پہلا ہی قول صحیح ہے ابن اسحاق کہتے تھے کہ جب یہ لوگ (یعنی زید بن حارثہ اور جعفر وغیرہ) شہید ہوئے تو رسول خد ﷺ نے فرمایا مجھے اس وقت (جبریل سے۹ یہ خبر ملی ہے کہ اب لشکر کا جھنڈا زید بن حارثہ نے لیا اور وہ لڑے یہاں تک کہ شہید ہوگئے پھر جعفر نے یا اور لڑے یہاں تک کہ وہ بھی شہید ہوگئے یہ کہہ کے رسول خدا ﷺ نے سکوت فرمایا یہاں تک کہ انصار کے چہرے غم سے متغیر ہوگئے اور وہ سمجھ گئے ہ عبداللہ بن رواحہ کو بھی وہی بات پیش آئی جو وہ نہ چاہتے تھے بعد اس کے رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ عبداللہ بن رواحہ نے جھنڈا لیا اور لڑے یہاں تک کہ وہ بھی شہید ہوگئے پھر یہ لوگ سونے کے تختوں پر بٹھا کے جنت میں اٹھا لے گئے میں نے عبداللہ (بن رواحہ) کے تخت کو دیکھا کہ وہ ان کے دونوں ساتھیوں (یعنی زید بن حارثہ اور جعفر) کے تخت سے ہٹا ہوا تھا میں نے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے تو مجھ سے بیان کیا گیا کہ وہ دونوں جب شہید ہوگئے تو ان کو تردد ہوا بعد اس کے یہ بھی شہید ہوگئے (اس تردد کی وجہ سے ان کا مرتمہ کچھ کم رہا) ابن اسحاق کہتے تھے مجھ سے عباللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمر ابن حزم نے ام عیسی سے انھوں نیام جعفر بنت جعفر بن ابی طالب سے انھوں نے ان کی دادی اسماء بنت عمیس سے نقل کر کے بیان کیا کہ وہ کہتی تھیں جب جعفر اور ان کے اصحاب شہید ہوگئے تو رسول خدا ﷺ میرے پاس تشریف لے گئے میں اپنا خمیر وندھ چکی تھی اور اپنے بیٹوں کو میں نے نہلایا تھا اور ان کے سر میں تیل ڈالا تھا اور انھیں صاف صاف کپڑے پہنائے تھے پس رول خدا ﷺ نے فرمایا کہ جعفر کے بیٹوںکو میرے پاس لے آء چنانچہ میں ان کو لے آئی رسول خدا ﷺ نے انھیں پیار کیا اور آپ کی دنوں آنکھوں میں آنسو بھر آئے میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہو جائین آپ کیوں روتے ہیں کیا آپ کو جعفر اور ان کے اصحاب کی کوئی خبر ملی ہے آ نے فرمایا ہاں وہ آشہید ہوگئے پس (یکایک میں بے اختیار) اٹھ کھڑ ہوئی اور چلانے لگی عورتیں جمع ہوگئیں اور رسول خدا ﷺاپنے گھر لوٹ گئے اور آپ نے (امہات المومنین سے) فرمایا کہ جعفر کے گھر کی خبر رکھنا کیوں کہ وہ لوگ آج مصیبت میں گرفتار ہیں ابن اسحاق کہتے تھے مجھ سے عبدالرحمن بن قاسم نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کر کے خبر دی کہ وہ کہتی تھیں جب جعفر کی وفات کی خبر آئی تو ہم نے رسول خدا ﷺ کے چہرہ میں سخت رنج دیکھا اور مروی ہے کہ رسول خدا ھ کو جب جعفر کی شہادت کی خبر ملی تو آپ ان کی بی بی اسماء بنت عمیس کے پاس تشریف لے گئے اور جعفر کی تعزیت کی اور حضرت (سیدۃ النسائ) فاطمہ (زہرا) بھی روتی ہوئی تشریف لے گئیں اور کہتی تھیں واعماہ (اے میرے چچا) تو رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ جعفر جیسے شخص پر رونے والیوں کو ونا چاہئے رسول خدا ﷺ کو اس واقعہ سے بہت ہی سخت رنج ہوا یہاں تک کہ جبریل آپ کے پاس آئے اور آپ کو خبر دی کہ جعفر کو دو خون آلودہ بازو دیے گئے ہیں جن سے وہ فرشتوں کے ساتھ اڑتے پھرتے ہیں عبداللہ بن جعفر کہتے تھے میں جب (اپنے چچا امیرالمومنین) علی سے کچھ مانگتا تھا اور وہ مجھے نہ دیتے تھے تو میں کہتا تھا بحق جعفر (مجھے دے دیجئے) پس فورا مجھے دے دیتے تھے۔ حضرت جعفر کی عمر جب وہ شہید ہوئے اکتالیس برس کی تھی اس کے علاوہ اور اقوال بھی ہیں۔ ان کا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)