اسلمی۔ اور بعض لوگ ان کو سلمی کہتے ہیں۔ یہ وہم ہے صحیح نام ان کا جاہمہ ہے۔ ان کا شمار اہل مدینہ میں ہے حسان بن غالب نے ابو لہیعہ سے انھوںنے یونس بن یزید سے انھوں نے محمد بن اسحاق سے انھوں نے محمد بن طلحہ سے انھوں نے ابو حنظلہ بن عبداللہ سے انھوں نے معاویہ بن جہم اسلمی سے انھوں نے اپنے والد جہم سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا میں رسول خدا ھ کے حضور میں گیا اور میں نے عرض کیاکہ یارسول اللہ میں نے خدا کی راہ میں جہاد کرنے کا ارادہ کیا ہے آپ نے فرمایا کیا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہے میں نے عرض یا کہ ہاں میری والدہ زندہ ہیں حضرت نے فرمایا تو تم ان کے قدم کو کڑ لو (یعنی ان کی خدمت کرو) جہم کہتے تھے کہ میں نے حضرت سے تین مرتبہ یہی کہا (بالاخر) آپ نے فرمایا کہ تیری خرابی ہو اپنی ماں کا قدم پکڑ ے وہیں جنت ہے۔ ابن جریج نے اس کی مکافلت کی ہے اور انھوں نے محمد بن طلحہ سے انھوں نے ابو حنظلہ بن عبداللہ سے انھوں نے معاویہ بن جہم اسلمی سے انھوں نے اپنے والد جہم سے روایت کی ہے اور یہی صحیح ہے۔ ابو نعیم نے کہا ہے کہ اس برے میں لوگوں نے ابن اسحاق کی مخالفت کی ہے بعض نے تو کہا ہے کہ معاویہ بن جاہمہ سے مروی ہے وہ اپنے والد جاہمہ سے روایت کرتے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ ابن معاویہ بن جاہمہ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا میں نبی ﷺ کے حضور میں حاضر ہوا ان میںس ے کسی نے (معاویہ بن) جہم نہیں کہا صرف حسان بن غالب نے ابن لہیعہ سے انھوں ن یونس بن یزید سے انھوںنے ابن اسحاق سے اس کی روایت کی ہے اور انھوںنے محمد اور معاویہ کے درمیان میں ابو حنظلہ بن عبداللہ کو داخل کر دیا ہے پس ابن جریج کے شگرد سب اس کے مخالف ہیں کیوں کہ ابن جریج کے شاگرد متفق اللسان ابن جریج سے اور وہ محمد بن طلحہ سے وہ اپنے والد یعنی طلحہ بن عبداللہ بن عبدالرحمن ابن ابی بکر صدیق سے روایت کرتے ہیں۔ انک ا تذکرہ ابن مندہ اور ابو نعیم نے لکھاہے۔ اور تینوں نے ان کو جاہمہ کینام میں لکھا ہے اور ان کو سلمی قرار دیا ہے نہ اسلمی۔
(اس الغابۃ جلد نمبر ۲)