(سیدنا) جہجاہ (رضی اللہ عنہ)
(سیدنا) جہجاہ (رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
ابن قیس۔ اور بعض لوگ کہتے ہیں ابن سعید بن سعد بن حرام بن غفار غفاری۔ اہل مدینہ میں سے ہیں ان سے عطاء ابن یسار اور سلیمان بن یسار نے روایت کی ہے۔ نبی ﷺ کے ہمراہ بیعۃ الرضوان میں شریک تھے اور غزوہ مریسیع میں بھی شریک تھے جو قبیلہ خزاعہ کی شاخ بنی مصطلق کے ساتھ ہوا تھا۔ اس زمانے میں یہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے اجیر تھے۔ ان کے اور سنان بن فروہ جہنیکے درمیان میں اس غزوہ میں کچھ نزاع ہوگئی تھی تو جہجاء نے آواز دی کہ اے مہاجرین (دیکھو) اور سنان نے آواز دی کہ اے انصار (دیکھو) اور سنان بنی عوف بن خزرج کے حلیف تھے اور یہی معاملہ عبد اللہ بن ابی سردار منافقین کے اس قول کاباعث تھا کہ لیخر جن الاعز منہا الاذل (٭ترجمہ صاحب عزت ذلیل کو وہاں سے نکال دے گا اس منافق نے یہ کہا تھا کہ اگر ہم مدینہ لوٹ کر گیء تو ہم میں جو صاحب عزت ہیں یعنی منافقین ذلیل لوگوں یعنی مسلمانوں کو مدینہ سے نکال دیں گے) ان سے عطاء بن یسار نے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کافر سات آتنوں میں کھاتا ہے اور مومن ایک آنت میں اس حدیث میں ان کی حالت کفر و اسلام مراد ہے کیوں کہ انوں نے قبل اسلام (٭قبل سلام لنے کے یہ نبی ﷺ کے مہمان ہوئے تو سات بکریوں کے دودھ میں بھی سیر نہ ہوئے تھے) لانے کے سات بکریوں کا دودھ پیا تھا پھر یہ اسلام لائے تو ایک بکری اک دودھ بھی نہ پی سکے۔ یہی ہیں جنھوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ نے عصا لے لیا تھا اور وہ خطبہ پڑھ رہے تھے پھر انھوں نے اس عصا کو توڑ ڈالا تو ان کے گھٹنے میں مرض آکلہ ہوگیا تھا وہ عصاء رسول خدا ﷺ کا تھا۔ ان کی وفات حضرت ثمان کی شہادت کے ایک سال بعد ہوئی۔ ہمیں اسمعیل بن عبید اللہ اور کئی لوگوں نے اپنی سند سے محمد بن عیسی تک خبر دی وہ کہتے تھے ہم سے ابن ابی عمرو نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں سفیان نے عمرو بن دینار سے نقل کر کے خبر دی کہ انھوںنے جابر بن عبداللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہم ایک جہاد میں تھے لوگ کہتے ہیں اس کا نام غزوہ بنی المصطلق ہے ایک شخص نے مہاجرین میں سے ایک انصاری شخص کی نشست گاہ میں طمانچہ مارا تو اس مہاجر نے کہا کہ مہاجرین کی دوہائی ہے انصاری نے کہا انصار کی دھائی ہے اس کو نبی ﷺ نے سنا تو فرمایا کہ یہ جاہلیت کی سی گفتگو کیوں ہو رہی ہے۔ لوگوں نے کہا کہ مہاجرین میں ایک شخص نے ایک انصاری شخص کی نشست گاہ میں طمانچہ مارا ہے حضرت نے فرمایا اس کا ذکر نہ کرو لغو بات ہے اس خبر کو عبد اللہ بن ابی بن سلول نے سنا اس نے کہا کیا مہاجرین نے ایسا کیا (اچھا) لیکن رجعنا الی المدینۃ لیجز جن الاعز منہا الاذل تو حضرت عمر نے عرض کیا کہ یارسول اللہ مجھے اجازت دیجئے تو میں اس منافق کی گردن مار دوں رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ جانے دو لوگ یہ کہیں کہ محمد اپنے اصحاب (٭اس وقت تک منافق مسلمانوں کے ساتھ ملے ہوئے تھے ظاہری امتیاز کوئی نہ تھا لہذا اگر قتل کئے جاتے تو ناواقف اغیار یہی سمجھتے کہ رسول خدا ﷺ اپنے اصحاب کو قتل کرتے ہیں) کو قتل کرتے ہیں اور عمرو بن دینار کے علاوہ اور راویوں نے بیان کیا ہے کہ (جب عبداللہ بن ابی نے یہ نالائق) (کہا تو۹ اس کے بیٹے عبدالہ بن عبداللہ نے (جو کامل الایمان شخص تھے) اس سے کہا کہ تو (یہاں سے) لوٹ کر نہیں جاکتا جب تک کہ اس امر کا اقرار نہ کرے کہ تو ذلیل ہے اور رسول خدا ﷺ باعزت ہیں چنانچہ اس نے اس کا اقرار کر لیا۔ ہمیں اب والفضل منصور بن ابی الحسن بن ابی عبدالہل فقیہ شافعی طبری نے اپنی سند سے ابو یعلی موصلی تک خبر دی وہ کہتے تھے ہم سے ابوبکر بن ابی شیبہ نے اور ابو کریبنے بیان کیا یہ دونوں کہتے تھے ہمیں زید بن حباب نے موسی بن عبیدہ سے انھں نے عبیدہ بن سلمان قرشی سے انوں نے عطاء بن یسار سے انوںنے جہجاہ غفاری سے نقل کر کے خبر دی ہ وہ کہتے تھے رسول خدا ﷺ نے فرمایا مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔ ان کا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔
(اس الغابۃ جلد نمبر ۲)