ابن سوید بن صامت بن خالد بن عطیہ بن خوط بن حبیب بن عمرو بن عوف بن مالک بن اوس۔ انصاری اوسی بعد اس کے یہ بنی عمرو بن عوف سے ہوئے۔ ان کا صحابی ہونا ثابت ہے اور ان کا ذکر مغازی میں ہوتا ہے۔ ابو صالح نے ابن عباس سے رویت کی ہے کہ حارث بن سوید ابن صامت دس فرقوں کے ساتھ اسلامس ے مرتد ہوگئے تھے اور مکہ چلے گئے تھے۔ پھر حارث بن سوید نادم ہوئے اور مکہ سے لوٹے یہاں تک کہ جب مدینہ کے قریب پہنچے تو اپنے بھائی جلاس بن سوید کے پاس کہلا بھیجا کہ میں اپنی حرکت پر نادم ہوں تم رسول خدا ﷺ سے میری طرف سے پوچھو کہ میں لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیتا ہوں پس کیا اگر میں حاضر ہو جائوں تو میری توبہ مقبول ہو جائے گی اگر نہ مقبول ہو تو میں پھر مکہ لوٹ جائوں چنانچہ جلاس نبی ﷺ کے حضور میں حاضر ہوئے اور آپ سے حارث کا حال اور ان کی ندامت کا اور ان کے شہادت دینے کا واقعہ بیان کیا اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی الا الذین تابوا من بعد ذلک واصلحوا (٭ترجمہ پوری کی آیت کا یہ ہے۔ مگر وہ لوگ جنھوں نے اس کے بعد توبہ کی اور اچھے کام کئے تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے) جلاس نے اپنے بھائی کے پاس کہلوا بھیجا اور وہ مدینہ آگئے اور انھوں نے رسول کدا ھ کے سامنے عذر خواہی کی ور اپنی حرکت سے اللہ کے سامنے توبہ کی نبی ﷺ نے ان کا عذر قبول کر لیا۔
جلاس (پلے) منافق تھے پھر انھوںنے توبہ کی اور اچھی توبہ کی عمیر بن سعد ک ساتھ ان کا واقعہ کتب تفسیر میں مشہور ہے وہ یہ ہے کہ غزوہ تبوک میں یہ رسول خدا ﷺ سے پیچھے رہ گئے تھے اور دوسرے لوگوں کو جانے سے روکنتے تھے (ایک روز) انھوں نے کہا کہ خدا کی قسم اگر محمد سچے ہوںت و ہم گدھے سے بدتر ہیں۔ عمیر بن سعد کی ماں ان کے نکاح میں تھیں عمیر یتیم تھے اور انھیں کی تربیت میں تھے ان کے پاس کچ ھمال نہ تھا یہی ان کی کفالت کیا کرتے تھے اور ان کے ساتھ عمدہ برتائو کرتے تھے عمیر نے جو ان کو یہ بات کہتے ہوئے سنی تو کہا کہ اے جلاس تم سب لوگوں سے زیادہ مجھے محبوب تھے اور تمہارا احسان بھی مجھ پر بہت ہے اور تم سب سے زیادہ میرے نزدیک معظم ہو مگر یہ بات تم نے ایسی کہی کہ اگر میں اس کو (نبی ﷺ سے بیان کروں تو یقین تم فضیحت ہو جائو گے اور اگر میں اس کو چھپائوں تو خود ہلاک ہو جائوں پس انھوں ن ینبی ﷺ سے جلاس کی گفتگو بیان کی نبی ﷺ نے جلاس سے پوچھا انھوںنے اللہ کیق سم کھا لی کہ میں نے ایسا نہیں کہا۔ عمیر جھوٹا ہے عمیر (اس وقت) موجود تھے عمیر نبی ھ کے پاس سے یہ کہتے ہوئے چلے آئے کہ اے اللہ جو کچھ میں نے بیان کیا ہے اس کی تصدیق اپنے نبی پر نازل کر دے چنانچہ اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی ولقد قالوا کلمۃ الکفر الایہ (٭ترجمہ اور بے شک ان لوگوں نے کفر کی بات کہی) پھر اس کے بعد جلاس نے توبہ کی اور اپنے گناہ کا اقرار کیا اور ان کی توبہ عمدہ ہوئی عمیر کے ساتھ جو سلوک کرتے تھے اس کو موقوف نہیں کیا اسی سے ان کی توبہ (کی عمدگی) معلوم ہوئی۔ ان کا تذکرہ تینوں نے لکھاہے۔ ابن مندہ نے ابو صالح سے انھوں نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ (اس رویت میں جس حارث کا ذکر ہے وہ۹ حارث بن جلاس بن صامت (ہیں) مگر یہ صحیح نہیں حارث جلاس بن سوید کے بھائی تھے س کو خود ابن مندہ اور ابو نعیم نے حارث کے بیان میں لکھاہے اور کہا ہیک ہ حارث بن سوید اور لوگوں نے بھی ایسا ہی لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)