بضم جیم بروزن قتیدیل۔ یہ انصاری ہیں۔ انکا ذکر ابو برزہ اسلمی کی حدیچ میں ہے ایک انصاری مرد کی لڑکی کے نکاح کرا دینے کے قصہ میں یہ پستہ قامت اور کم رو تھے پس وہ انصاری یعنی لڑکی کا باپ اور اس کی ماں ان سے نکاح کرنا نہ چاہتے تھے مگر جب لڑکی نے سنا کہ رسول خدا ﷺ کا یہ ارادہ ہے تو اس نے اللہ تعالی کا یہ قول پڑھا وما کان مومن ولا مومنۃ اذا قضی اللہ و رسولہ امرا ان تکون لھم اخیرۃ من امرہم (٭ترجمہ کسی ایماندار مرد اور کسی ایماندار عورت کو یہ نہن پہنچتا کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا حکم دیں تو ان کو اپنے اس کام ین اختیار باقی رہے یعنی اس کام کا کرنا ان پر ضروری ہے) اور کہا کہ میں اس بات پر راضی ہوں اور اس کو برقرار رکھتی ہوں جو میرے لئے رسول خدا ھ نے پسند فرمائی ہے پس رسول خدا ھ نے اس لڑکی کے لئے دعا کی اور فرمایا کہ اے اللہ ان دونوں پر خیر (و برکت) نازل فرما اور ان کی زندگی کو تنگ نہ کر چنانچہ (اس دعا کا یہ اثر تھا کہ) تمام انصار سے زیادہ ان کے پاس مال و دولت تھی۔ ہمیں عبد اللہ بن احمد خطیب نے اپنی سند سے ابودائود طیالسی تک خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں حماد بن سلمہ نے ثابت سے انھوںنے کنانہ بن نعیم عدوی سے انھوں نے ابو بردہ اسلمی سے روایت کر کے خبر دی کہ رسول خدا ھ اپنے کسی جہاد میں تھے جب آپ قتال سے فارغ ہوئے تو آپ نے (انے صحابہ سے) فرمایا کہ کیا تم کسی کو نہیں پاتے لوگوں نے عرض کیا کہ ہاں واللہ ہم فلاں فلاں لوگوں کو نہیں پتے (معلوم ہوتا ہے وہ شہید ہوگئ) آپ نے فرمایا مگر میں جلیبیب کو ڈھونڈھ رہا ہوں تو لوگوں نے انھیں مقتل میں تلاش کیا تو سات آدمیوں کے پاس انھیں پایا جن کو انھوں نے قتل کیا تھا اور بعد سات آدمیوں کے قتل کے کافروں نے ان کو قتل کیا تھا پس یہ نبی ھ کے پاس لائے گئے اور آپ سے سب کیفیت بیان کی گئی آپ نے فرمایا انھوں نے سات آدمیوں کو قتل کیا بعد اس کے کافروں نے ان کو قتل کیا یہی کلمہ آپ نے دو مرتبہ یا تین مرتبہ فرمایا بعد اس کے آپ نے دونوں ہاتھ پھیلا دیئے پھر یہ نبی ﷺ کے دونوں ہاتھوں (٭حضرت جلیبیب کی اس خوش قسمتی پر رشک آتا ہے اور بے اختیار دل میں یہ آرزو پیدا ہوتی ہے کہ کاش بجائے ان کے میں ہوتا گو ایسی آرزو بھی سو ادب سے خالی نہیں) پر رک دیئے گئے پس ان کے لئے رسول خدا ﷺ کے دونوں ہاتھ تخت تھے یہاں تک کہ یہ دفن کر دیئے گئے اس حدیث میں غسل (٭یہ حدیث حنفیہ کے موافق ہے حنفیہ کینزدیک شہید بغیر غسل کے دفن کئے جاتے ہیں) کا کچھ ذکر نہیں ہے اس حدیث کو دیلم بن غزوان نے ثابت س انھوں نے انس سے رویت کیا ہے حالانکہ یہ وہم ہے۔ ان کا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)