ابن ابی الجراح اشجعی۔ انکا صحابی ہونا ثابت ہے۔ ان سے عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے رویت کی ہے وہ کہتے تھے ہمیں ابو یاسر بن نے اپنی سند سے ابن احمد بن حنبل تک خبر دی وہ کہتے تھے مجھ سے میرے والد نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں ابودائود نے خبر دی وہ کہتے تھے میں ہشامنے قتادہ سے انھوں نے خلاس سے انھوں نے عبداللہ بن عتبہ سے روایت کر کے خبر دی کہ وہ کہتے تھے عبداللہ بن مسعود سے ایک مسئلہ پوچھا گیا کہ ایک شخص نے ایک عورت سے نکاح کیا اور نوبتہمسبتری کی نہیں آئی کہ اس شخص کا انتقال ہوگیا اور اس عورت کا کچھ مہر مقرر نہیں کیا تھا ایک مہینے تک ان سے برابر یہ مسئلہ پوچھا گیا مگر انھوں نے جواب نہیں (٭صحابہ کی حرم و احتیاط کا نمونہ اس رویت سے معلوم ہوتا ہے اسی حرم و احتیاط کو جب ہمارے ائمہ نے خوب جانچ لیا تو یہ کلیہ مقرر کیا کہ جو بات عقل سے معلوم ہوسکتی ہے اس کے متعلق صحابہ کا قول حدیث نبی کے حکم میں ہے) دیا پھر لوگوں نے ان سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ میں اس مسئلہ کا جواب اپنی رائے سے دیتا ہوں اگر اس میں غلطی ہوگی تو میرا اور شیطان کا قصور ہے اور اگر غلطی نہ ہوگی تو اللہ ی طرف سے ہے (اچھا سنو) اس عورت کو وہی مہر دیا جائے گا جو اس کے خاندان کی عورتوں کا اور اس کو اپنے شوہر کے مال میں میراث بھی ملے گی اور اس پر عدت بھی ضروریہے پس ایک شخص قبیلہ اشجع کا کھڑا ہوگیا اور کہا کہ رسول خدا ﷺ نے ہمارے یہاں بزوع بنت واسق کے بابتیہی فیصلہ کیا تھا عبداللہ بن مسعود نے کہا کہ تم اس بات پر دو گواہ (٭یہ احتیاط صرف حصرات ابن مسعود اور بعض صحابہ کے خصوصیات سے ہے ورنہ روایت میں شہادت کی ضرورت نہیں) لائو راوی کہتا ہے کہ قبیلہ اشجع کے دو آدمیوں یعنی ابو سنان اور جراح نے اس کی شہادت دی۔ انکا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)