(سیدنا) جریر (رضی اللہ عنہ)
(سیدنا) جریر (رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
ابن عبداللہ بن جابر۔ جابرکا نام شلیل بن مالک بن نصر بن ثعلبہ بن جشم بن عوف بن خریمہ بن حرب بن علی بن مالک ابن سعد بن نذیر بن قسر بن عبقر بن انمار بن اراش۔ کنیت ان کی ابو عمرو اور بعض لوگ کہتے ہیں ابو عبداللہ بجلی ہیں۔ قبیلہ بجیلہ کی بابت اہل نسب کا باہم اختلاف ہے بعض لوگ انھیں اہل یمن کہتے ہیں اور اراش بن عمروبن غوث بن بنت عمرو نے کہا ہے کہ قبیلہ بجیلہ کے لوگ ازد کے بھائی ہیں یہی قول کلبی کا اور اکثر علمائے نسب کا ہے اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہ قبیلہ نزار کی ایک شاخ ہے اور کہا ہے کہ بجیلہ کا نام انمار بن نزار بن معد بن عدنان ہے یہی قول ہے ابن اسحاق کا اور مصعب کا واللہ اعلم۔
لوگوں نے اس قبیلے کے لوگوںکو ان کی ماں بجیا بنت اصعب بن علی بن سعد عشیرہ کی طرف منسوب کیا ہے جریر نبی ﷺ کی وفات سے چالیس دن پہلے اسلام لائے تھے۔ بہت خوبصورت تھے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے جریر اس امت کے یوسف ہیں۔ یہ اپنی قوم کے سردار تھے جب نبی ﷺ کے حضور میں حاضر ہوئے تو آپنے ان کی بہت عظمت کیاور فرمایا کہ جب تمہارے پاس کسی قوم کا کوئی سردار آئے تو اس کی عظمت کرو۔ عراق کی لڑائیوں یعنی قادسیہ وغیرہ میں ان سے بڑِ کار نمایں ظاہر ہوئے بجیلہ کے لوگ متفرق رہتے تھے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انھیں یکجا کیا اور جریر کو ان پر سردار مقرر کیا۔ ہمیں استاد ابو منصور بن مکارم بن احمد بن مکارم مودب نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابوالقاسم یعنی نصر بن محمد بن صفوان نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیںابو البرکات سعد بن محمد بن ادریس نے اور خطیب ابو الفضل حسن بن ہیبۃ اللہ نے خبر دی یہ دونوں کہتے تھے ہمیں ابو الفرج محمد بن ادریس بن محمد بن ادریس نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابو المنصور مظفر بن محمد طوسی نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابو زکریا یزید بن محمد بن ایاس بن قاسم ازدی موصلی نے خبر دی وہ کہتے تھے مجھ سے محمد بن حمید رازی سے نقل کر کے رویت بیان کی گئی وہ سلمہس ے وہ محمد بن اسحاق سے روایت کرتے تھے کہ انھوں نے کہا جب حضرت عمر رضیاللہ عنہ کو اہل حبہ کی مصیبت اور ان کی شکست کیخبر پہنچی اور (اسی وقت) جریر بن عبداللہ یمن سے سوادان بجیلہ کے ہمراہ پہنچے ان کے ہمراہ عرفجہ ہرثمہ بھی تھے جو قبیلہ ازد سے تھے اور بجیلہ کے حلیف تھے اور وہی اس زمانے میں بجیلہ کے سردار تھے تو حضرت عمر نے ان لوگوں سے گفتگو کی اور کہا کہ تمہیں معلوم ہیک ہ تمہارے بھائیوں پر عراق میں کیا مصیبت آئی لہذا تم ان کے پاس جائو اور جتنے لوگ تم میں سے قبائل عرب میں سے ہیں ان سب کو میں تمہارے پاس بھیجتا ہوں اور وہیں تم سب کو یکجا کرنا چاہتا ہوں ان لوگوں نے کہا کہ اے امیر المومنین ہم ایسا ہی کرین گے چنانچہ حضرت عمر نے ان کے ہمراہ قیس بن کبہ کو اور شحمہ کو اور عرینہ کو جو عامر بن صعصعہ کے خاندان سے تھے اور یہ سب بجیلہ کی شافعین ہیں ان کے ہمراہ کر دیا اور عرفجہ بن ہرثمہ کو ان کا سردار بنایا جریر بن عبداللہ اس بات سے ناخوش ہوئے اور انھوں نے قبیلہ بجیلہ کے لوگوں سے کہا کہ تم امیر المومنینے کہو کہ آپنے ہم پر ایسے شخص کو سردار بنایا ہے جو ہم میں سے نہیں ہے (چنانچہ جب حضرت عمر سے یہ کہا گیا) تو انھوںنے عرفجہ سے پوچھا کہ یہ لوگ کیا کہتے ہیں عرفجہ نے کہا اے امیرالمومنین یہ لگ سچ کہتے ہیں میں ان میں سے نہیں ہوں میں قبیلہ ازد ے ہوں ہم نے زمانہ جاہلیت میں اپنی قوم میں ایک خون کر دیا تھا اس سبب سے ہم قبیلہ بجیلہ سے مل گئے اور ہمیں ان کی سرداری ملی جیسا کہ آپ کو معلوم ہے حصت عمر نے فرمایا تو تم اپنے رتبہ پر قالم ہو اور ان لوگوں کی بات کو رد کر دو جس طرح یہ تمہاری بات کو رد کرتے ہیں انھوں نے کہا میں ایسا نہ کروں گا اور نہ ان کے ہمراہ جائوں گا چنانچہ فجہ بصرہ چلے گئے بعد اس کے سرداری ان سے لے لی گئی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جریر کو بجیلہ کا سردار بنا دیا اور جریر عرفجہ کی جگہ پر قائم ہو کر عراق گئ۔ جریر نے کوفہ کی سکونت اختیار کر لی تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کوفہ تشریف لے گئے اور وہیں سکونت اختیار فرمائی تو جریر وہاں سے قرقیسیا چلے گئے اور وہیں وفات پائی بعض لوگ کہتے ہیں (مقام) سراۃ میں وفات پائی۔ ان سے ان کے بیٹوں عبید اللہ اور منذر اور ابراہیم نے رویت کی ہے اور نیز ان سے قیس بن ابی حازم نے اور شعبی نے ور ہمام بن حارث نے اور ابو وائل نے اور ابو زرعہ بن عمرو بن جریر وغیرہم نے رویت کی ہے ہمیں اسماعیل بن عبید اللہ نے اور کئی آدمیوں نے اپنیسند سے (امام) محمد بن عیسی بن سورۃ سلمی (ترمزی) تک خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں احمد بن منیع نے خبر دی وہکہتے تھے ہمیں معاویہ بن عمر ازدی نے زائدہ سے انھوں نے بیان سے انھوں نیقیس بن ابی حازم سے انھوں نے جریر بن عبداللہ سے روایت کر کے خبر دی کہ وہ کہتے تھے جب سے میں اسلام لایا رسول خدا ﷺ نے کبھی مجھ سے حجاب نہیں فرمایا اور جب مجھے دیکھا مسکرا دیئے۔ اس حدیث کو زائدہ نے اسمعیل بن ابی خالد سے انھوں نے قیس بن ابی حازمسے انھوںنے جریر سے اسی طرح رویت کیا ہے۔ ابو عیسی (امام ترمذی) نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے انھیں رسول خدا ھ نے ای الخلصہ کی طرف بھی بھیجا تھا ذی الخلصہ ایک گھر (کا نام) تھا جس میں قبیلہ خثعم کے بت رہتے تھے (حضرت نے) اس کے منہدم کرنے کے لئے ان کو بھیجا تھا انھوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ میں گھوڑے پر اچھی طرح جم کے نہیں بیٹھ سکتا رسول خدا ﷺ نے ان کے سینے پر ہاتھ ٹھونکا اور فرمایا کہ اے اللہا س کو ہدایت کرنے والا اور ہدایت یافتہ بنا دے پھر ڈیڑھ سو سوار اپنی قوم کے لے کر گئے وار ذی الخلصہ کو جلا دیا پس رسول خدا ﷺ نے احمس کے گھوڑوںاور اس قبیلہ کے مردوںکے لئے دعا فرمائی۔ ہمیں ابو الفضل خطیب نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیںابو الخطاب بن بطر نے اجازۃ خبر دی اگر سماعا نہ ہو وہ کہت یتھے ہمیں عبداللہ معلم نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں حسین محاملی نے خبر دی وہ کہتے تھے احمد بن محمد بن یحیی بن سعد نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں جعفی نے زائدہس ے انھوں نے بیان بجلی سے انھوں نے قیس بن ابی حازم سے نقل کر کے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں جریر بن عبداللہ نے خبر دی وہ کہتے تھے (ایک مرتبہ) شب ماہ میں رسول خدا ﷺ ہمارے سامنے تشریف لائے اور فرمایا کہ تم لوگ قیامتکے دن انے پروردگار کو اس طرح دیکھو گے جس طرح اس کو ۰یعنی ماہبات کو) دیکھ رہے ہو اس کے دیکھنے میں کسی قسم کا شکنہ کرو گے۔ جریر کی وفات سن۵۱ھ میں ہوئی اور بعض لوگ کہتے ہیں سن۵۴ھ میں زرد خضاب لگایا کرتے تھے۔ ان کا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)