انصاری اوسی۔ حماد بن سلمہ نے محمد بن اسحاق سے انھوں نے یزید بن قسیط سے روایت کی ہے کہ جندع بن ضمرہ جندعی نبی ﷺ کے حضور میں حاضر ہوئے تھے۔ یہ ابن مندہ کا قول ہے۔ اور ابو نعیم نے آدم سے انھوں نے حماد سے انھوں نے ثبت سے انھوں نے عبدالہ بن حارث بن نوفل کے بیٹے سے انھوں نے اپنے والد جندع انصاریس ے روایت کی ہے کہ انھوںنے کہا میں نے رسول خدا ﷺ سے سنا آپ فرماتے تھے کہ جو شخص عمدا (٭عمدا جھوٹ بولنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے معلوم ہو کہ حضرت نے یہ نہیں فرمایا اور پھر آپ کی طرف منسوب کرے) میرے اوپر جھوٹ بولنے اسے چاہئے کہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں تلاش کرے۔ اور عطا بن سائب نے عبداللہ بن حارث سے روایت کی ہے کہ جندع جندعی نبی ﷺ کے حضور میں حاضر ہوا کرتے تھے حضرت ان کو اپنے نزدیک بٹھا لیتے تھے اور ان پر مہربانی کرتے تھے ابو احمد عسکری نے اپنی سند سے عمارہ بن یزید سے انھوں نے عبداللہ بن علاء سے انھوں نے زہری سے روایت کی ہے وہ کہتے تھے میں نے سعید بن جناب سے سنا وہ ابو عنفوانہ مازنی سے روایت کرتے تھے کہ انھوں نے کہا میں نے ابو جنیدہ یعنی جندع بن عمرو بن مازن سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے نبی ﷺ کو یہفرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص عمدا میرے اوپر جھوٹ بولے اسے چاہئے کہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں تلاش کر لے اور میں نے آنحضرت ﷺ سے سنا ہے اگر نہ سنا ہو تو میرے کان بہرے ہو جائیں آپ جب حجۃ الوداع (٭حجۃ الوداع وہ حج جو حضرت رسول اللہ ﷺ کا آخری حج تھا) سے لوٹے اور غدیر خم (٭غدیر خم ایک چشمہ کانام ہے مقام محجفہ سے تین میل ہے ہم حجۃ الوداع کا مختصر حال نہایت جامعیت کے ساتھ علم الفقہ کی پانچویں جلد میں لکھ چکے ہیں اسی مقام پر ہم نے اس خطبہ کی مفصل کیفیت اس کے مباحث و نتائج کے لکھی ہے شائقین اس جلد کو دیکھ کر تفصیلی حالات معلوم کر لیں) میں پہنچے تو آپ لوگوںکے سامنے خطبہ پڑڑھنے کھڑے ہوگئے اور آپ نے علی (مرتضی) کا ہتھ پکڑا اور فرمایا من کنت ولیہ فہذا ولیہ اللھم وال من والاہ وعا ومن حاداہ (٭ترجمہ جس کا میں محبوب ہوں علی بھی اس کے محبوب ہیں اے الہ محبتکر اس سے جو علی سے محبت کرے اور دشمنی رکھ اس سے جو علی سے دشمنی رکھے) عبید اللہ (راوی) کہتے تھے میں نے زہری سے کہا کہ یہ حدیث تم ملک شام میں نہ بیان کرو تم خود اپنے کانوں سے سب (٭سب کے معنی کہنا اہل شام شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد سے حضرت علی مرتضی کی طرف مشکوک ہوگئے تھے پھر جنگ جمل و صفین نے ان کس شکوک اور ظنون فاسدہ کو یقین کی سرحد تک پہنچا دیا تھا بسریت اور معاصرت اور پھر اس پر واقعات کی پیچیدگی اور ان سب پر مزید بلوائیوں کی فتنہ انگیزی نے ان کو تحقیات کا موقع نہ دیا اور شیر خدا کی طرف سے وہ بدظن ہے زمانہ مابعد میں جب تحقیقات کامل ہوگئی تو وہ خیالات جاتے رہے یہ اسی زمانہ قبل از تحقیقات کا حال ہے کہ بعض لوگ حضرت علی مرتضی ککی برائیاں کیا کرتے تھے مگر علمائے ربانی علی مرتضی کے فضائل و مناقب کے بیان سے ایسی حکمتیں بھی باز نہ آتے تھے) علی سن رہے ہو زہری نے کہا (بس اسی حدیث پر تم کو ایسا خیال آیا) خدا کی قسم میرے پاس علی کے فضائل اس قدر ہیں کہ اگر میں انھیں بیان کروں تو بے شک قتل کر دیا جائوں۔
میں کہتا ہوں ابن مندہ نے شروع تذکرہ میں ایسی ہی روایت لکھی ہے تذکرہ لکھا ہے جندع انصاری کا اور حدیث لکھی ہے جندع ابن ضمرہ جندعی کیا ور بے شک ابن مندہ کو اس میں اشتباہ ہوگیا ہے کیوں کہ جندع بن ضمرہ کا تذکرہ اس تذکرہ کیبعد آئے گا۔
(اس الغابۃ جلد نمبر ۲)