(سیدنا) جندب (رضی اللہ عنہ)
(سیدنا) جندب (رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
ابن جنادہ بن سفیان بن عبید بن حرام بن غفار بن ملیل بن ضمرہ بن بکیر بن عبد مناف بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ ابن الیاس بن مضر۔ بعض لوگ اس کے علاوہ اور کچھ کہتے ہیں۔ کنیت ان کی ابو ذر غفاری ان کا تذکرہ کنیت کے باب میں ان شاء اللہ آئے گا۔ یہ اس وقت اسلام لائے تھے جب کہ نبی ﷺ مکہ میں تھے۔ اول الاسلام تھے یہ چوتھے مسلمان تھے اور بعض لوگ کہتے ہیں یہ پانچویں تھے۔ ان کے نام میں اور ان کے نسب میں بہت اختلاف ہے یہ پہلے شخص ہیں جنھوںنے رسول خدا ھ کو اسلامی سلام کیا جب یہ مسلمان ہوچکے تو اپنی قوم کے پاس لوٹ کے آئے ور وہیں مقیم رہے یہاں تک کہ نبی ﷺ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی پھر یہ نبی ﷺ کے پاس حاضر ہوئے بعد اس کے کہ جنگ بدر اور احد اور خندق ہوچکی تھی اور یہ نبی ﷺ کی صحبت میں رہے یہاں تک کہ آ کی وفات ہوگئی۔ نبی ﷺ کی بعثت کے تین برس پہلے سے یہ خدا کی عبادت کیا کرتے تھے۔ انھوں نے نبی ﷺ سے اس بات پر بیعت کی تھی کہ خدا کی راہ میں ان کو کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خیال نہ ہوگا اور یہ کہ حق بات کہہ دیا کرین گے گو وہ تلخ ہو۔
ہمیں ابراہیم بن محمد اور اسماعیل بن عبید اللہ اور ابوجعفر بن سمیں نے اپنی سند سے ابو عیسی ترمذی تک خبر دی وہ کہتے تھے ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہم سے ابن نمیر نے اعمش سے انھوں نے عثمان بن عمیر یعنی ابو الیقضان سے انھوں نے ابو حرب سے انھوں نے ابو الاسود دیلی سے انھوں نے عبداللہ بن عمرو سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے تھے میں نے رسول خدا ﷺ سے سنا آپ فرمات یتھے کہ آسمان نے سایہ نہیں کیا اور زمیں ین (اپنے اوپر) نہیں اٹھایا کسی ایسے شخص کو جو ابو ذر سے زیادہ راست گفتار ہو۔ روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اوب ذر دنیا میں عیسی بن مریم کے زہد پر چل رہے ہیں۔
ان سے حضرت عمر بن خطاب اور ان کے بیٹے عبد اللہ بن عمر نے اور ابن عباس نے اور بہت صحابہ نے رویت کی ہے پھر بعد وفات حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے یہ ملک شام چلے گئے تھے اور برابر وہیں رہے یہاں تک کہ حضرت عثمان خلیفہ ہوئے تو انھوں ن حضرت معاویہ کی شکایت پر ان کو بلا لیا اور ان کو زبدہ میں رہنے کو جگہ دی (چنانچہ یہ وہیں رہنے لگے) یہاں تک کہ وہیں ان کی وفات ہوگئی۔ ہمیں ابوبکر محمد بن عبدالوہاب بن عبداللہ بن علی انصاری نے جو ابن شبرجی کے نام سے مشہور ہیں اور کئی لوگوں نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں حافظ ابو القاسم علی بن حسن بن ہبۃ اللہ بن حسن شافعی نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں شریف ابو القاسم علی بن ابراہیم بن عباس بن حسن بن حسین یعنی ابو الحسن نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابو عبد اللہ محمد بن علی بن یحیی بن سلون مازنی نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیںابو الاسم فضل بن جعفر تمیمی نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابوبکر یعنی عبدالرحمن بن قاسم بن خرج بن عبدالواحد ہاشمی نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابو مسہر نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں سعید بن عبدالعزیز نے ربیعہ بن یزید سے انھوں نے ابو ادریس خولانی نے سے انھوں نے ابو ذر سے روایت کر کے خبر دی وہ رسول خدا سے اور آپ حضرت جبریل علیہ السلام سے اور وہ اللہ تبارک و تعالی سے روایت کرتے تھے کہ اس نے فرمایا اے میرے بندو میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کر لیا ہے اور اس کو تمہارے لئے بھی حرام کر دیا ہے پس اے میرے بندو باہم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو تم رات دن خطا کرتے رہتے ہو اور میں ہی ہوں جو خطائوں کو بخشتا ہوں اور کچھ پرواہ نہیں کرتا پس تم مجھ سے بخشش طلب کرو میں تمہاری خطائین بخش دوں گا اے میرے بندو تم سب بھوکے ہو سوا اس کے جس کو میں کھلائوں پس تم مجھ سے کھانا طلب کرو میں تمہیں کھلائوں گا۔ اے میرے بندو تم سب ننگے ہو سوا اس کے جسے میں پنائوں پس تم مجھ سے کپڑا طلب کرو میں تمہیں کپڑا دوں گا۔ اے میرے بندو اگر تمہارے اگلے اور پچھلے اور انس اور جن سب ایک بہت بڑے بدکار شخص کے مثل ہو جائیں تو یہ بات میری بادشاہت میں کچھ بھی نقصان پیدا نہ کرے گی اے میرے بندو اگر تمہارے اگلے اور پچھلے اور انس و جن ایک بہت بڑے متقی شخص کے مثل ہو جائیں تو یہ بات میری بادشاہت میں کچھ بھی زیادتی نہ پیدا کرے گی اے میرے بندو اگر تمہارے اگلے اور پچھلے اور انس اور جن سب ایک مقام میں جمع ہو کر مجھ سے مانگیں اور میں ہر ایک جو وہ مانگے دے دوں تو یہ بات میری سلطنت میں کچھ بھی کمی نہ پیدا کرے گی مگر اس قدر جس قدر کہ دریا میں سوئی کے ایک مرتبہ ڈبونے سے دریا کا پانی کم ہو جاتا ہے اے میرے بندو یہ تمہارے اعمال ہیں جن کی میں تمہیں پاداش دیتا ہوں پس اگر کوئی شخص بھلائی پائے تو اسے چاہئے کہ اللہ کا شکر کرے اور جو شخص اس کے خلاف پائے اسے چاہے کہ اپنے ہی آپکو ملامت کرے۔ ہمیں ابو محمد حسن بن ابو القاسم یعنی علی بن حسن نے اجازۃ خبر دی وہ کہتے تھے مجھے میرے والد نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابو سہل یعنی محمد بن ابراہیم نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابو الفضل رازی نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں جعفر بن عبداللہ نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں محمد بن ہارون نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں محمد ابن اسحاق نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں عفان بن مسلم نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں وہیب نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں عبداللہ بن عثمان بن جشم نے مجاہد سے انھوں نے ابراہیم بن اشتر سے انھوںنے اپنے والدس ے انھوں نے حضرت ابو ذر کی بی بی سے روایت کر کے خبر دی کہ جب حضرت ابو ذر کی وفات کا وقت آیا اور وہ ربذہ میں تھے تو ان کی بی بی رونے لگیں حضرت ابو ذر نے پوچھا کہ تم کیوں رو رہی ہو انھوں نے کہا میں اس ئے روتی ہوں کہ مجھے تمہارے لئے کفن کی ضرورت ہوگی حالانکہ میرے پاس کوئی ایسا کپڑا نہیں ہے جو تمہارے کفن کے لئے کافی ہو جائے حضرت ابو ذر نے کہا تم نہ روئو میں نے رسول خدا ﷺ سے سنا ہے اس کو میں تم سے بیان کرتا ہوں ایک دن میں چند لوگوںکے ہمراہ رسول خدا ﷺ کی خدمت ین تھا آپ نے فرمایا ہ ایک شخص تم میں سے ایک ویران زمیں میں مرے گا اس کی تجہیز و تکفین میں مومنین کی ایک جماعت شریک ہوگی پس میرے ہمراہ جتنے لوگ اس مجلس میں تھے سب آبادی میں اور پستی میں مرے سوا میرے کوئی ابقی نہیں رہا اور میں ویرانہ ہی میں رہا ہوں پس تم راستے میں جاکر انتظار کرو تم یقینا وہ بات دیکھ لو گی جو میں تم سے کہہ رہا ہوں اور میں واللہ جھوٹ نہیں بولتا اور نہ مجھ سے جھوٹ بیان کیا گیا ہے وہ کہن لگیں کہ یہ کس طرح ہوگا اب حجاج کا قافلہ بھی نکل گیا حضرت ابو ذر نے کہا تم را سے میں جاکر انتظار کرنا (چنانچہ وہ راستے میں کھڑی ہوئیں وہ اسی حال میں تھیں کہ یکایک کچھ لوگوں کو انھوں نے دیکھا کہ وہ اپنی سواریاں دوڑاتے ہوئے آرہے ہیں گو کہ وہ زخم (ایک تیز پرواز پرند) پس وہ لوگ سامنے آئے اور ان کے پاس کھڑے ہوگئے اور کہا کہ تمہارا کیا حال ہے انھوںنے کہا کہ ایک مرد مسلمان (کا انتقال ہو رہا ہے) تم اسے کفن دو گے اور اس کا اجر حاصل کرو گے ان لوگوں نے پوچھا کہ وہ کون ہے انھوں نے کہا ابو ذر تو ان لوگوں نے کہا کہ ہمارے ماں باپ ان پر فدا ہو جائیں بعد اس کے انھوں نے اپنے اونتوں کو کوڑے مارے تاکہ جلد حضرت ابو ذر کے پاس پہنچ جائیں چنانچہ جب یہ حضرت ابو ذر کے پاس پہنچ تو انھوں نے کہا کہ تم خوش ہو جائو تمہیں وہ لوگ ہو تمہارے ہی حق میں رسول خدا ﷺ نے فرمایا تھا بعد اس کے انھوں نے کہا کہ اس وقت میں یہاں ہوں جہاں تم دیکھرہے ہو اگر میرے پاس کوئی ایسا کپڑا ہوتا جو میرے کفن کے لئے کفایت کر سکتا تو مجھے اسی میں کفن دیا جاتا پس اب میں تمہیں اللہ کی قسم دلاتا ہوں کہ مجھے وہ شخص کفن نہ دے جو امیر (٭ان کے مزاج میں احتیاط بہت تھی لہذا یہ قید لگائی امیر اور عریف اور قاصد اکثر اپنے منصبی فرائض کو پورا نہیں کرسکتے) ہو یا عرفی رہا ہو یا قاصد رہا ہو اتفاق سے جس قدر لوگ تھے سب میں کوئی نہ کوئی بات موجود تھی سوا ایک انصاری کیجو انھیں لوگوںکے ہمراہ تھا اس نے کہا میں اس کام کے قابل ہوں وہ کپڑے میرے پاس ہیں جو میری ماں کی کاتی ہوئی روئی سے (بنے ہوئے) ہیں ان دونوں میں سے ایک کپڑا یہ میرے جسم پر ہے حضرت ابو ذر نے کہا ہاں تو ہی میرا رفیق ہے تو مجھے کفن دے۔
حضرت ابو ذر کی وفات سن۳۲ھ میں ہوئی ان کے جنازے کی نماز عبداللہ بن مسعود نے پڑھائی وہ بھی انھیں لوگوں میں تھے جو ان کی وفات کے وقت پہنچ گئے تھے وہ لوگ حضرت ابو ذر کے اہل و عیال کو حضرت عچمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس مدینہ لیگئے حضرت عثمان نے انک ی صاحبزادی کو اپنے بچوں کے ساتھ رکھ لیا اور کہا کہ اللہ ابو ذر پر رحم کرے۔ حضرت ابو ذر گندمی رنگ کے دراز قامت تھے سر کے بال اور ڈاڑھی کے بال سپید تھے ہم ان کے باقی حالات ان شاء اللہ تعالی کنیت کے باب میں لکھیں گے۔ انکا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)