ابن حدرجان بن مالک۔ یہ اور ان کے والد اور ان کے بھائی قذاذ سب صحابی ہیں۔ اپنی بھائی کی دیت اذر قصاص کے طلب کرنے کے لئے نبی ﷺ کے حضور میں حاضر ہوئے تھے۔ ہشام بن محمد بن ہاشم بن جزء بن عبدالرحمن بن جزء ابن حدرجان نے رویت کی ہے وہ کہتے تھے مجھ سے میرے والد نے اپنے والد ہاشم سے انھوں نے اپنے والد جزء سے انھوں نے ان کے دادا عبدالرحمن سے انھوں نے اپنے والد جزء بن حدرجان سے جو نبی ﷺ کے اصحاب میں سے تھے روایت کر کے بیان کیا کہ وہ کہت یتھے میرے بھائی قذاذ بن حدرجان نبی ﷺ کے حضور میں یمن کے ایک موضع سے جس کا نام فتوتا تھا (قبیلہ) ازد کے سردار دن کے ہمراہ اپنے ایمان اور اپنے گھر کے ان لوگوں کے ایمان کو جنھوں نے کہ ان کا کہنا مانا خبر لے کے آئے تھے یہ کل چھ سو گھر تھے جنھوں نے کہ حدرجان کا کہنا مانا تھا اور محمد ﷺ پر ایمان لے آئے تھے (اثنائے راہ میں) نبی ﷺ کا سریہ انھیں مل گیا ان سے قذاذ نے کہا کہ میں مومن ہوں مگر لشکر ولاونں نے نہ مانا اور ش ہی کو انھیں قتل کر ڈالا جزء کہتے تھے ہمیں جب یہ خبر ملی تو ہم رسول خدا ھ کے پاس گئے اور آپ سے سارا واقعہ بیان کیا اور اپنا خون طلب کیا اس وقت نبی ﷺ پر یہ آیت نازل ہوئی یاایھا الذین امنوا اذا ضریتم فی سبیل اللہ الایہ (٭ترجمہ پوری آیتکا یہ ہے ہ اے مسلمانو جب تم اللہ کیر اہ میں (جہاد کرنے کے لئے) سفر کرو جو شخص تم سے صلح کرنا چاہے اس سے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں ہے) پس نبی ﷺ نے مجھے ایک ہزار اشرفی میرے بھائی کی دیت عنایت فرمائی اور مجھے سو اونتنیاں سرخ رنگ والی دیے جانے کا حکم دیا۔ رسول کدا ﷺ نے (اسی وقت) ان کے لئے ایک جھنڈا بنا دیا اور مسلمانوںکا ایک سریہ انھیں دیا یہ سریہ حاتم طائی کے قبیلے کی طرف گیا اور وہاں اس کو بہت سی بکریاں غنیمت میں ملیں اور چالیس عورتیں حاتم کے قبیلے کی اس نے گرفتار کیں یہ عورتیں (مدینہ منورہ) لائی گئیں اللہ سبحانہ نے ان سب کو اسلامکی ہدایت کر دی اور رسول خدا ﷺ نے ان کا نکاح اپنے اصحابس ے کر دیا۔ ان کا تذکرہ ابن مندہ اور ابو نعیم نے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۲)