بن عبدبن ثعلبہ بن سلیم بن ذہل بن لقیط بن حارث بن مالک بن فہم بن غنم بن دوس بن عدنان ابن عبداللہ بن زہران بن کعب بن حارث بن کعب بن عبداللہ بن نصر بن ازدازدی۔ بیان کیاگیاہےکہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کازمانہ پایاتھایہ بصرہ کے قاضی تھےحضرت عمربن خطاب نے ان کوبصرہ کا قاضی مقررکیاتھا۔محمد بن سیرین نے ان کے بہت سے احکام اوراحادیث نقل کی ہیں۔شعبی نے روایت کی ہے کہ کعب بن سورایک روزحضرت عمرکے پاس بیٹھے ہوئےتھے ایک عورت آئی اوراس نےکہامیں نے اپنے شوہر سے زیاد ہ بزرگ کسی کو نہیں دیکھاشب بھرتو وہ عبادت کرتےہیں اورایسی سخت گرمی کے زمانے میں بھی ہرروزروزہ رکھتے ہیں کبھی ناغہ نہیں کرتے پس حضرت عمرنےاس عورت کے لیے دعائے مغفرت کی اوراس کی تعریف کی اورفرمایاکہ تو تعریف کی زیادہ مستحق ہے وہ عورت شرمندہ ہوکرچلی گئی کعب بن سورنے کہایاامیرالمومنین آپ نے اس عورت کی مصیبت دورنہ کی وہ اپنی مصیبت دورکرانےکے لیے آپ کے پاس آئی تھی حضرت عمرنے کہاایسی بات ہے انھوں نے کہاہاں پس حضرت عمرنے فرمایاکہ اس عورت کو میرے پاس لاؤ چنانچہ وہ واپس لائی گئی حضرت عمرنے فرمایاسچ کہنےمیں کچھ مضائقہ نہیں کعب کہتے ہیں کہ تم میرے پاس اپنے شوہر کی شکایت کرنے آئی تھیں کہ وہ تمھارے بسترسے علیحدہ رہتاہےاس عورت نے کہاہاں یہی بات ہے میں ایک جوان عورت ہوں اورمیں بھی وہی چاہتی ہوں جواورعورتیں چاہتی ہیں پس حضرت عمرنے اس کےشوہرکوبلابھیجا جب وہ آیاتوکعب سے فرمایاکہ تم ان دونوں کے درمیان فیصلہ کردوانھوں نے کہاکہ امیرالمومنین فیصلہ کرنے کے زیادہ حق دارہیں حضرت عمرنے فرمایاکہ میں تم کو تاکید کرتاہوں کہ تم ان دونوں کی بات سمجھ گئے اورمیں نہیں سمجھ سکاکعب نے کہامیری رائے یہ ہے کہ اس عورت کو چاردنوں میں سے ایک دن ملناچاہیے گویااس کےشوہر کی چار بی بیاں ہیں۔پس ایک دن یہ اپنی اس بی بی کے پاس سوئے اورتین دن عبادت کرے حضرت عمرنے فرمایاواللہ جیسے تمھاری پہلی رائے مجھے پسند آئی ویسی ہی آخری رائے بھی مجھے پسند ہےاچھاجاؤ تم کو میں نے بصرہ کا قاضی بنادیاپھرحضرت موسیٰ کوایک تحریران کے تقررکی لکھ دی چنانچہ حضرت عمر کی خلافت بھر بصرہ کے قاضی رہے اورحضرت عثمان کی خلافت میں قاضی رہے پھرجنگ جمل میں حضرت عائشہ کی طرف سے شہید ہوئے اس دن یہ دونوں صفوں کے درمیان نکل کر آئے تھے اور ان کے ہاتھ میں مصحف تھایہ لوگوں کو خوں ریزی کی ممانعت کررہے تھے اورکہتے تھے کہ کتاب خدا سے فیصلہ کرلواتنے میں ایک نامعلوم تیرآیااوریہ شہید ہوگئے اس وقت ان کے ہاتھ میں مصحف تھااوردوسرے ہاتھ میں اونٹ کی باگ تھی۔قتال فارس میں ان سے کارنمایاں ظاہرہوئے۔ ان کاتذکرہ تینوں نے لکھاہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7 )