بن ضبہ بن ربیعہ بن قزعہ بن عبداللہ بن محزوم بن غالب بن فظیعہ بن عسربن بغیض بن ریث بن غطفان عبسی ثم المخزومی۔فتح مصرمیں شریک تھےاوروہاں انھوں نے ایک احاطہ گھیرلیاتھا وہاں یہ قاضی بھی تھے۔سعید بن عفیر نے کہاہے کہ اسلام میں یہ سب سے پہلے قاضی ہیں جو مصر میں متعین کیے گئےتھے زمانہ جاہلیت میں بھی عہدۂ قضا سے ممتازتھےسعید بن ابی مریم نے بیان کیا ہے کہ یہ خالد بن سنان عبسی کے نواسے تھےجن کے حق میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھاکہ وہ بھی ایک نبی تھےمگران کی قوم نے ان کوضائع کردیااورحیوۃ بن شریح نے ضحاک بن شرحبیل غافقی سے انھوں نے عماربن سعد تجیبی سے روایت کی ہے کہ حضرت عمرنے عمروبن عاص کولکھاتھاکہ کعب بن ضبہ کوقاضی بنادو چنانچہ عمروبن عاص نےان کو بلوایا اورحضرت عمر کا خط ان کو سنایامگر انھوں نے کہاکہ یہ ہرگزنہ ہوگاکہ خد انے مجھ کوجاہلیت سے اوراس کے مہلکوں سے نجات دی اب میں پھراسی میں ۱؎ پڑوں مجبورہوکر عمروبن عاص نے ان کو چھوڑدیا۔ابونعیم نے کہاہے کہ حضرت عمرکے قاضی بنانے کے ارادہ سے یہ لازم نہیں آتاکہ یہ صحابی ہوں نہ اس حدیث میں کوئی دلیل ان کے صحابی ہونے کی اوریہ بھی کوئی ضروری نہیں ہے کہ جس نے جاہلیت کازمانہ پایاہو وہ صحابی ہو۔ ان کاتذکرہ تینوں نے لکھاہے۔
میں کہتاہوں کہ ابن مندہ اورابونعیم نے جولکھاہے کہ یہ قاضی بنائےگئےتھےاوریہ سب سے پہلے قاضی تھے اورروایت سے معلوم ہوا کہ انھوں نےعہدہ قضاقبول نہیں کیااس میں کوئی تناقص نہیں ہے اصل یہی ہے کہ حضرت عمرنے ان کوقاضی بناناچاہاتھااوراس کے متعلق انھوں نےعمروبن عاص کولکھاتھا۔
۱؎حدیث شریف میں آیاہے کہ جوشخص قاضی بنایاگیاوہ بغیرچھری کےذبح کیاگیا۱۲۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7)