سیّدنا کعب ابن زہیر رضی اللہ عنہ
سیّدنا کعب ابن زہیر رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن ابی اسلمی۔ابوسلمی کا نام ربیعہ بن قرط بن حارث بن مازن بن حلاوہ بن ثعلبہ بن ثور بن ہدمہ بن لاطم ابن عثمان بن عمروبن اذبن بن طابخہ تھا۔مزنی ہیں۔صحابی ہیں۔کعب اور ان کے بھائی بجیرجوزبیرکے بیٹے تھے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گئےتھےجب مقام ابرق الغرف میں پہنچےتوبجیر نے کعب سے کہاکہ تم اسی مقام میں ہماری بکریوں کو دیکھتے رہو تاک میں اس شخص سے یعنی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے مل آؤں اورسنوں کہ وہ کیاکہتےہیں چنانچہ کعب وہیں ٹھیرے اوربجیر گئے اوررسول خداکی خدمت میں پہنچےحضرت نے ان کواسلام کی ترغیب دی چنانچہ یہ مسلمان ہوگئے یہ خبر کعب کو پہنچی توانھوں نے یہ اشعارنظم کیے
۱؎ الاابلغابجیراً۔سالتہً علی اے شی دیب غیرک وتکا
علی خلق لم تلف اماولاابا علیہ ولم تدرک علیہ اخالکا
سقاک ابوبکربکاس رویتہ وانہلک المامورمنہاوعلکا
۱؎ ترجمہ۔اے قاصد بجیرکومیرایہ پیغام پہنچادے کہ کس وجہ سے تونے غیرکادین اختیارکیاوہ دین جس پرتونے اپنے باپ کودیکھانہ ماں کونہ بھائی کوابوبکرنے تجھے بہت ہی بری تعلیم دی جس سے تو ہلاک ہوگیا۱۲۔
جب ان اشعارکاعلم رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کوہواتوآپ نے ان کا خون معاف کردیا اورفرمایا کہ شخص کعب کو پائے وہ اس کوقتل کردےبجیر نےاپنےبھائی کو اس کی اطلاع کردی اورکہاکہ اب اپنے بچاؤ کی فکرکرواورمیں سمجھتاہوں کہ تم نہ بچ سکوگے بعد اس کے لکھاکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جوشخصلاالہ الااللہ محمدرسول اللہکی شہادت دیتاہےآپ قبول کرلیتے ہیں اور پچھلے قصور معاف کردیتے ہیں لہذا میرے اس خط کے پہنچتے ہی تم چلے آؤ اوراسلام لاؤ چنانچہ کعب بھی آئے اورانھوں نے ایک نعتیہ قصیدہ بھی نظم کیاجب یہ مدینہ پہنچے توانھوں نے اپنا اونٹ مسجد نبوی کےدروازے پربٹھلادیااورمسجد کے اند رگئے دیکھاکہ رسول خد ا صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے بیچوں بیچ بیٹھے ہیں اورکبھی اس کی طرف ملتفت ہوکر اس سے باتیں کرتے ہیں اورکبھی اس کی طرف ملتفت ہوتے ہیں کعب کہتےتھے میں نے اس قرینہ سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیااورمیں آپ کے قریب جاکے بیٹھااوراپنااسلام ظاہر کیااورعرض کیاکہ مجھے امان دیجیے آپ نے فرمایاتم کون ہو میں نے عرض کیاکہ کعب بن زہیرآپ نے فرمایاتمھیں نے یہ اشعار نظم کیے ہیں اورآپ نے حضرت ابوبکر صدیق کو اشارہ کیاکہ ان اشعارکوپڑھو چنانچہ انھوں نے وہ اشعار پڑھے جب یہ مصرعہ پڑھاگیاوانہلک المامورمنہاوعلکاتومیں نے عرض کیاکہ یارسول اللہ میں نے ایسانہیں کہاتھابلکہ میں بجائے مامورکے لفظ ماموں کہاتھا اس کے بعدپھرانھوں نے اپنا قصیدہ نعتیہ سنایا
۱؎ بانت سعادفقلبی الیوم مبتول متیم اثر ہالم یفد مکبول
ان الرسول لسیف یستضأ بہ مہندمیں سیوف اللہ مسلول
انبئت ان رسول اللہ اوعدنی والعفوعندرسول اللہ مامول
۱؎ترجمہ۔سعار(نامی محبوبہ)نے جدائی اختیارکی جس سے میرادل بے چین ہے۔اس کے بعد نہایت ذلت ہے اوراس قیدی کافدیہ نہیں دیاجاسکتا۔بے شک رسول ایک تلوارہیں جن کی روشنی پھیل رہی ہے۔خداکی تلواروں میں سے ایک برہنہ شمشیرہے مجھے خبردی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ڈرایامگررسول اللہ سے بخشش کی امیدہے۱۲۔
رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم نے (خوش ہوکر)حاضرین کواشارہ کیاکہ سنویہاں تک کہ انھوں نے اپناقصیدہ پوراکیایہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوئے ہیں جب آپ طائف سے واپس تشریف لائےتھے ان کے عمدہ اشعار میں سے چند شعریہ ہیں
۱؎ لو کنت اعجب من شئی لاعجبنی سعی الفتی وہومخبؤ لہ القدر
یسعی الفتی لامورلیس یدرکھا والنفس واحدۃ والہم منتشر
والمرٔ ماعاش ممدود لہ امل لاتنتھی العین حتی ینتھی الاثر
۱؎ ترجمہ۔اگرمجھے کسی چیرپرتعجب ہوتاتو آدمی کی اس کوشش پر ضرور تعجب ہوتاجس کے خلاف تقدیر میں ثابت ہوچکاہے آدمی ایسی باتوں کے لیے کوشش کرتاہےجن کو وہ پانہیں سکتانفس ایک ہی ہے۔اورمقاصد بہت ہیں ۔آدمی جب تک زندہ رہے گاہوس کم نہ ہوگی اثر نہیں جاتاجب تک نشان رہتاہے۱۲۔
نیزاشعارذیل بھی ان کے عمدہ کلام میں ہیں۱۲۔
۱؎ ان کنت لاترہب ذمی لما تعرف من صفحی عن الجاہل
فاخش سکوتی اذانامتصنت فیک لمسموع خنی القائل
فالسامع الذام شریک لہ ومطعم الماکول کالاً کل
مقالتہ السؤ الے اہلہا اسرع من منحدر سائل
ومن دعاالناس الے ذمہ ذموہ بالحق وبالباطل
۱؎اگرتومیری مذمت میں ڈرتاہواس سبب سے کہ جاہلوں سے میرے اعراض کوجانتاہے۔مگرتجھے میری سکونت سے ڈرنا چاہیے۔کیوں کہ میں بیہودہ گوئیان تیری سنتاہوں سننے والابرائی کرنے والے کا شریک ہے۔کسی چیزکاکھلانے وال مثل کھانے والے کے ہے۔بری بات اس کے اہل تک سیّال چیز سے بھی تیز پہنچ جاتی ہے جولوگوں کو اپنی مذمت کی طرف بلاتاہے لوگ اس کو حق وباطل غرض ہرطرح براکہنے لگتے ہیں۱۲۔
اس قصیدہ میں اس سے زیادہ اشعارہیں ۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوایک چادرعنایت فرمائی تھی جو اب تک شاہان اسلام کے پاس ہے ان کے والد زہیرکی وفات بعثت سے چھ برس پہلے ہو گئی ہے۔یہ ابواحمد عسکری کا قول ہے۔ان کا تذکرہ تینوں نے لکھاہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7 )