سیّدنا لبید ابن ربیعہ رضی اللہ عنہ
سیّدنا لبید ابن ربیعہ رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن عامر بن مالک بن جعفربن کلاب بن ربیعہ بن عامر بن صعصعتہ العامری ثم الجعفری بڑے نامورشاعرتھےرسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے حضورمیں اس سال حاضرہوئےتھے جب کہ ان کی قوم کے لوگ یعنی بنی جعفرآئےتھےچنانچہ اسلام لائے اوران کا اسلام بہت ہی اچھاہوا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے ایک مرتبہ ان کا یہ شعرپڑھا
۱؎ ذہب الذین یعاش فی اکنافہم وبقیت فی خلفی کجلہ الاجرب
۱؎ترجمہ۔وہ لوگ چل بسے جن کے ظل حمایت میں زندگی آرام سے گزرتی تھی۔اوراب میں ناکارہ لوگوں کے درمیان میں ہوں۱۲۔
یہ شعرپڑھ کر کہنے لگیں اللہ لبیدپررحم کرےاگروہ ہمارازمانہ پاتے تونہ معلوم کیاکہتے یہ حدیث بہت طویل ہے اورحضرت ابوہریرہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایاسب سے سچی بات جو شاعرکی زبان سے نکل سکتی ہے لبید کا یہ مصرع ہے عالاکل شئی ماخلااللہ باطل۔جب یہ اسلام لائے توپھرانھوں نے شعرکہنا چھوڑدیااورسوائے ایک شعرکے پھرکوئی شعر انھوں نے نہیں کہاوہ شعریہ ہے
۱؎ مااعت المرٔ الکریمہ کنفہ والمرٔ یصلحہ القرین الصالح
۱؎ترجمہ۔کریم آدمی اپنی جان کے برابرکسی کو تکلیف نہیں دیتا۔اورآدمی کواچھا ہم نشین صالح بنا دیتا ہے۔
اوربعض لوگوں نے کہا کہ وہ شعریہ ہے
۱؎ الحمدللہ اذلم یاتنی اجلی حتی اکتسبت من الاسلام سربالا
۱؎ترجمہ۔خداکاشکرہے کہ میری موت نہ آئی یہاں تک کہ میں نے اسلام کا لباس پہنا۔
اوربعض لوگوں نے کہاہے کہ یہ شعران کا نہیں ہے دوسرےکاہے ان کا شعریہ ہے
۱؎ وکل امرٔ یومأ سیعلم سعیہٗ اذاکشفت عندالالہ المحاصد
۱؎ترجمہ۔ہرشخص ایک دن اپنے عمل کا نتیجہ دیکھ لے گا۔جب کہ اللہ کے سامنے تمام اعمال کے نتائج ظاہرہوں گے۱۲۔
اکثرمورخین نے لکھاہے کہ اسلام کے بعدانھوں نے ایک شعربھی نہیں کہاہے جاہلیت میں بھی بزرگ تھےاوراسلام میں بھی بزرگ تھے۔انھوں نے یہ نذرکی تھی کہ جب صبا(ایک قسم کی ہوا) چلے گی تواونٹ قربانی کرکے لوگوں کو کھلایاکرونگاپھراس کے بعد کوفے گئے جب صباچلتی تومغیرہ بن شعبہ کہتےتھےکہ اے بھائیولبید کی مددکرو تاکہ وہ اپنی نذرمیں سچے رہیں بیان کیاگیاہے کہ ایک روز صباچلی اورلبید اس وقت کوفے میں تھےاورنہایت تنگدستی اورافلاس کی حالت میں تھے اس کی خبر ولید بن عقبہ بن ابی معیط کو جو کوفے کے حاکم تھے پہنچی توانھوں نے لوگوں کے سامنے خطبہ پڑھا۔ اورکہاکہ تم لوگوں کومعلوم ہے کہ لبید نے کیانذرمانی ہے لہذاتم لوگ اپنے بھائی کی مددکرو اس کے بعد ولید نے سواونٹنیاں اپنے پاس سے بھیجیں اورلوگوں نے بھی (بقدرہمت)بھیجے پس لبیدنے اپنی نذرپوری کی ولید نے یہ اشعاربھی ان کو لکھ کر بھیجے وہ شعریہ ہیں
۱؎ اری الجزاریشحذ شفریتہ اذا ہبَّت ریاح ابی عقیل
اغرالوجہ ابیض عامری طویل الباع کا یسف الصیقل
وفی ابن الجعفری بحلفیتہ علی العلاَّت والمال القلیل
بنحر الکوم اذ سبحت علیہ ذیول صباتجاوب بالاصیل
۱؎ترجمہ۔میں دیکھتاہوں کہ بزقصاب اپنی چھری تیز کرنے لگتاہے۔جب ہواابوعقیل کی چلتی ہے۔ ان کا روشن چہرہ اورسفید رنگ ہے ۔عامری ہیں ان کی ہلتی کلائیاں مثل صیقل کی ہوئی تلوارکے ہیں۔ ابن جعفری نے اپنی حلف پوری کی باوجود کثرت عیال وقلت مال کے۔اونٹنیاں ذبح کیں جب صبا (نامی ہوا)چلی۱۲۔
جب یہ اشعارلبیدکے پاس پہنچےتولبید نے اپنی بیٹی سے کہاکہ ان اشعارکاجواب کہہ دو تم جانتی ہو کہ میں شاعرکے جواب دینے میں معذورنہ تھامگرمیں نے شعرکہناچھوڑدیاہےپس ان کی بیٹی نے یہ اشعار موزوں کیے
۱؎ اذاہبت ریاح ابی عقیل وعوناعندہبتہاالولیدا
اشم الانف اصید علشیما اعان علی مرؤتہ لبیدا
بامثال الہضاب کان رکبا علیہا من بنی حام قعودا
اباوہب جزاک اللہ خیرا نحرناہاواطعمناالثریدا
فعدان الکریم لہ معاد وثنی یا ابن اروی ان تعودا
۱؎ترجمہ۔جب ابوعقیل می ہوائیں چلتی ہیں توہم ولید کو یاد کرتےہیں ۔بڑی ناک والابڑی آنکھ والا قبیلہ عبدشمس کاجس نے اپنی مروت کے سبب سے لبید کی مدد کی۔ایسی بڑی بڑی اونٹنیاں دیں کہ ان کے کوہانوں پر شبہ ہوتاتھاکہ قبیلۂ بنی حام کے لوگ سوار ہیں۔اے ابووہب اللہ تمہیں جزائے خیردے ہم نے ان اونٹنیوں کو قربانی کیااورثرید بناکرلوگوں کو کھلایا۔لہذا پھرایسی ہی بخشش کرو کریم بارباربخشش کرتاہے میراگمان یہ ہے کہ اے ابن ارویٰ تم پھربخشش کرو۱۲۔
بعداس کے انھوں نے یہ شعراپنے والد کوسنائےانھوں نے کہاشعرتم نے اچھے کہے مگرکچھ طول ہوگیاانھوں نے کہاخدا کی قسم میں نے اس کو اس وجہ سے طول دیاکہ لبید ایک شاہانہ مزاج کاآدمی ہے اگربازاری ہوتاتومیں ایسانہ کرتی لبید ابن ربیعہ اورعلقمہ بن علاثہ عامری مولفتہ القلوب میں سے تھے مگرآخرکار ان دونوں کااسلام بہت اچھاہوگیایہ اشعاربھی بہت نفیس ہیں جواپنے بھائی کے مرثیہ میں کہےتھے
۱؎ اعاذل مایدریک الاتطینا اذارحل السفارمن ہوراجع
ایجزع ممااحدث الدہرامفتی وای کریم لم لقبہ القوارع
لعمرک ماتدری الضوارب بالحصی ولازاجرات الطیرمااللہ مانع
وماامرٔ الاکالشہاب وضؤہ یحورُرماوابعدماہوساطع
وماالبرالامضمرات من التقی وماالمال الامعمرات ودیع
۱؎ترجمہ۔اے عاذل تم کو کیامعلوم جوتم سفرکرنے والے کے لوٹنے کی امیدرکھتےہو۔حوادث زمانہ پرکیوں بے صبری کی جائے کون کریم ہے جس کو مصائب نہ پہنچےہوں قسم تیری جان کی کنکری پھینکنےوالے اورپرندوں کے ڈاٹنے والے نہیں جانتے کہ اللہ ان کوروکے ہوئے ہے۔آدمی کی مثال ایسی ہے جیسے شہاب اوراس کی روشنی کہ بلندہونے کے بعد وہ خاک ہوجاتی ہے۔نیکی باقی رہنے والی چیزہے اورمال توایک ودیعت ہے۔
حضرت عمربن خطاب نے ایک روزلبیدابن ربیعہ سے کہاکہ مجھے کچھ اپنے اشعارسناؤلبیدنے کہاکہ میں کوئی شعرنہ کہوں گابعداس کے کہ اللہ نے مجھے سورہ بقرہ اورآل عمران کی تعلیم کردی ہے یہ سن کرحضرت عمرنے ان کے وظیفہ میں پانچ سو روپیے زائد کردیاپہلے ان کاوظیفہ دوہزارتھا جب حضرت معاویہ کا زمانہ آیاتوانھوں نے ان سے کہاکہ خیرہ وہزارتوتھےہی یہ پانچ سوکیوں اضافہ ہوئے اورچاہا کہ اس زیادتی کودورکردیں لبید نے کہااگرآپ ایسا کریں گے تومیں مرجاؤں گااوراصل اوراضافہ سب آپ کےلیے بچ جائےگایہ سن کرحضرت معاویہ کو رحم آیااورانھوں نے ان کا معاوضہ بدستور قائم رکھاچند روز بعد ان کی وفات ہوئی توولید بن عقبہ نے بیس اونٹ ان کے مکان پربھیجےوہ ان کی طرف سے قربان کردیے گئے روایت ہے کہ شعبی نے عبدالملک بن مروان کودعادی تھی کہ تم اس قدرزندہ رہوکہ جس قدر ولید بن ربیعہ زندہ رہے لبید بن ربیعہ کی عمر بہت تھی جب ان کی عمر ستتر برس کی ہوئی تو انھوں نے یہ اشعارکہے
۱؎ باتت تشکی الی النفس مجہشتہ وقد حملتک سبعابعد سبعین
فان تزادی ثلاثا تبلغی املا وفی الثلاف وفأ للمثانینا
۱؎ترجمہ۔نفس مجھ سے کوتاہی کی شکایت کرتاہے حالاں کہ ستتر۷۷کی عمرہوچکی ۔تین اوربڑھائیں تو امید پوری ہوتیں کے اضافہ سے پورے اسی ۸۰ ہوجائیں گےا۔
پھرجب ان کی عمرنوے برس کی ہوئی تویہ شعرکہا
۲؎ کافی وقدجاوزت تسعین حجتہ خلعت بہاعن منکبی روائیا
۲؎ترجمہ۔اب میری عمرنوے سے زائد ہوگئی اورمیرے شانے سے چادراترگئی۔
پھرجب ان کی عمرایک سودس برس کی ہوئی تویہ شعرکہا
۳؎ الیس فی ماتہ قد عاشہارجل وفی تکامل عشربعدہاعمر
۳؎ترجمہ۔کیاایک سو دس برس کے پھرانسان کی زندگی نہیں ہوسکتی۔
پھرجب ان کی عمرایک سوبیس برس کی ہوئی تویہ شعرکہا
۴؎ ولقد سمئت من الحیاۃ وطولہا وسوال ہذاالناس کیف لبید
۴؎ترجمہ۔میں زندگی کے طول سے اورلوگوں کے پوچھنے سے کہ لبیدکیاہے گھبراگیا۱۲۔
حضرت مالک بن انس نے کہاکہ لبیدبن ربیعہ ایک سو چالیس برس زندہ رہے اوربعض لوگوں کاقول ہے کہ ایک سو ستاون برس زندہ رہےبعض لوگوں کوبیان ہے کہ ۴۱ھ ہجری میں ان کی وفات ہوئی بعد اس کے حضرت معاویہ کوفہ گئےاورخلافت اپنے متعلق کرلی اورمقام نجیلہ میں فروکش ہوئے۔ ان کا تذکرہ تینوں نے لکھاہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7)