سیّدنا معاذ بن عمرو بن جموح بن زید بن حرام بن کعب بن غنم بن کعب بن سلمۃ الانصاری خزرجی سلمی: یہ صاحب عقبہ اور بدر میں اپنے والد عمرو بن جموح (ان کے والد کے
نام کے بارے میں اختلاف ہے) کے ساتھ موجود تھے۔ عمرو بن جموح احد میں شہید ہوگئے تھے، بہر حال معاذ بن عمرو کے بارے میں، عبد الملک بن ہشام نے زکریا البکائی سے
انہوں نے ابنِ اسحاق سے روایت کی کہ یہ معاذ وہی آدمی ہیں، جنہوں نے ابو جہل کی ٹانگ کاٹ ڈالی تھی اور عکرمہ نے ان کا ایک بازو کاٹ دیا تھا۔ اس کے بعد معوذ بن
عفراء پر دوسرا وار کر کے انہیں بالکل بے بس کردیا تھا۔ ابھی ابو جہل میں زندگی کی رمق باقی تھی کہ عبد اللہ بن مسعود نے اس کا کام تمام کردیا۔
بکائی نے ابن اسحاق سے، انہوں نے ثور بن یزید سے اُنہوں نے عکرمہ سے اُنہوں نے ابن عباس اور عبد اللہ بن ابوبکر سے بیان کیا۔ معاذ بن عمرو بن جموح کہتے ہیں کہ
مَیں نے ایک جماعت کو باہم گفتگو کرتے سُنا وہ ابو جہل کے متعلق کہہ رہے تھے کہ وہ اِدھر نہ جائے۔ چنانچہ مَیں نے اپنے دل میں ٹھان لی اے آخرہ۔ ہم اس واقعہ کو
معاذ بن حارث بن عفراء کے ترجمے میں بیان کر آئے ہیں۔
بکائی نے ابن اسحاق سے روایت کی ہے، کہ معاذ بن عمرو ہی وہ آدمی ہیں، جنہوں نے ابو جہل کو قتل کیا تھا لیکن ابن ادریس نے ابن اسحاق سے یوں بیان کیا ہے کہ ابو
جہل کے قاتل معاذ بن عفراء تھے اور عبید اللہ بن احمد نے باسنادہ یونس بن بکیر سے، انہوں نے السری بن اسماعیل سے اُنہوں نے شعبی سے، انہوں نے عبد الرحمان بن عوف
سے روایت کی کہ ہم بدر کے دن دُشمن کے آمنے سامنے تھے کہ عفراء کے دونوں بیٹے ایک طرف علیحدہ کھڑے تھے۔ اور ان کے سوا میرے قرب و جوار میں اور کوئی آدمی نہیں
تھا۔ مَیں نے دل میں کہا۔ مَیں یہاں کیوں کھڑا ہوں۔ اگر مجھے کوئی تکلیف پیش آگئی، تو یہ لڑکے مجھے اسی حالت میں چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ مَیں ابھی اس سوچ ہی میں
تھا کہ ان میں سے ایک میری طرف بڑھا کہنے لگا۔ چچا جان! کیا آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں؟ مَیں نے کہا ہاں بیٹا۔ لیکن تمہیں اس سے کیا کام ہے؟ اس نے کہا، ذرا مجھے
دکھا دیجیے، مَیں نے اللہ سے عہد کیا ہے کہ آج اُسے جہاں بھی دیکھ پایا، ضرور قتل کردوں گا بشرطیکہ درمیان میں کوئی ایسی آڑ نہ حائل نہ ہوجائے، جسے مَیں نہ ہٹا
سکوں۔ اتنے میں دوسرا بھائی بھی قریب آگیا اور اس نے بھی اسی طرح کی گفتگو کی۔ اتنے میں اچانک ابوجہل اپنے دراز دم گھوڑے پر سوار سامنے آگیا۔ ان میں سے ایک نے
گھوڑے پر حملہ کیا۔ اس کے بعد اچھی طرح سنبھل کر اُس نے ابو جہل کی ران پر وار کیا اور ابوجہل گِر پڑا۔ اس پر ابو جہل کے ملازم نے جو حفاظت کے لیے ساتھ تھا۔
قاتل کا کام تمام کردیا اور قاتل کے بھائی نے ملازم کا سر اُڑا دیا جلد ہی مشرکین کو شکست ہوگئی۔ اس حدیث اور مذکورہ بالا احادیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ
ابو جہل کے قاتل معاذ بن عفراء تھے۔