خطامہ بنو طے کا ایک ذیلی قبیلہ ہے اور خطامہ علی بن حرب بن محمد بن علی بن حبان بن مازن بن غضوبہ کا دادا تھا اس نے کاہنوں کے انداز میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بارے میں پیش گوئی کی تھی۔ ابوموسیٰ بن ابوبکر المدنی اور احمد بن عباس سے مروی ہے کہ ہم نے ابوبکر محمد بن عبداللہ سے، اس نے سلیمان بن احمد بن ایوب سے، اس نے موسیٰ بن جمہور الشینی السمار سے، اس نے علی بن حرب سے اس نے ابوالمنذر ہشام بن محمد الکلبی سے اس نے اپنے باپ عبداللہ العمانی سے اور اس نے مازن بن غضوبہ سے سنا اس نے بیان کیا کہ میں ایک بت کا جس کا نام ناجر تھا، پجاری تھا۔ یہ سر زمین عمان کے ایک قصبے میں نصب تھا۔ ایک دفعہ ہم نے اس پر ایک جانور قربان کیاتو معاً بت سے آواز آئی: ’’اے مازن؛ میری ایک بشارت سنو، نیکی عیاں ہوگئی ہے اور برائی نے منہ چھپالیا ہے اور بنو مضر کے دین کو خدائے جلیل کے دین نے پچھاڑ دیا ہے؛ اگر تم جہنم کی آگ سے بچنا چاہتے ہو تو پتھروں کی پوجا چھوڑ دو۔‘‘ مازن کہتے ہیں، میں نے سنا تو گھبرا گیا لیکن بات آئی گئی ہوگئی کچھ دنوں کے بعد ہم نے پھر ایک جانور ذبح کیا چنانچہ اس بت نے پھر مجھ سے مخاطب ہوکر کہا: ’’ادھر آؤ میری بات سنو، اور احمق نہ بنو، مکے میں ایک نبی مبعوث ہوا ہے اس پر ایمان لاؤ تاکہ تم سیدھے راستے سے نہ بھٹکو اور دوزخ کی آگ میں جلنے سے بچ[۱] جاؤ‘‘ یہ سن کر مجھے حیرت ہوئی اور میں جان گیا کہ اس میں ضرور کوئی بھلائی ہے۔
[۱۔حدیث مخدوش ہے کہ بت نہ بول سکتا ہے نہ غیب جانتا ہے۔ مترجم]
اس اثناء میں حجاز کا ایک آدمی وہاں آ نکلا، میں نے پوچھا کہو، تمہارے علاقے حجاز میں کوئی نئی بات واقع ہوئی ہے! کہنے لگا، ہاں، ہمارے یہاں ایک شخص جن کا نام نامی احمد ہے نے ظہور فرمایا ہے، وہ کہتے ہیں میری دعوت پر لبیک کہو اور صرف خدائے واحد کی پرستش کرو، میں نے اسے بتایا کہ یہی بات میں نے اس بت کی زبان سے سنی ہے اس کے بعد میں نے بت کو توڑ پھوڑ دیا اور اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور یوں ملتمس ہوا: ’’یارسول اللہ میں بنو خطامہ سے ہوں میں بڑا عیاش ، شرابی کبابی اور عورتوں کا رسیا رہا ہوں، سارا مال و متاع ان نامحمود مشاغل کی بھینٹ چڑھ گیا ہے، چنانچہ اب افلاس و بدحالی کی گرفت میں ہوں،دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بیٹا عطا فرمائے‘‘۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اور تمام افعال بد سے چھٹکارا حاصل ہوا پھر میں نے چار شادیاں کیں، خدا نے مجھے اولادِ نرینہ سے نوازا، نیز قرآن حکیم کی بعض سورتیں میں نے حفظ کرلیں اور کئی حج کیے: اشعار
۱۔ یارسول اللہ! میری اونٹنی، آپ کی طرف اٹھ دوڑی، اور عمان سے عرج تک صحراؤں اور ریگستانوں کو طے کرتی چلی گئی۔
۲۔ تاکہ آپ یارسول اللہ (جو اشرف[۱] المخلوقات ہیں) میرے شفیع بنیں، اور میرا رب میرے گناہ معاف کردے اور پھر میں اپنے گھر فلج لوٹ جاؤں۔
[۱۔ مَنْ وَطَئ، لحصیٰ: تمام ان لوگوں سے بہتر، جنہیں ان سنگریزوں پر چلنے کا اتفاق ہوا۔]
۳۔ ان لوگوں کی طرف لوٹ جاؤں، جن کے دین کو میں نے ترک کردیا ہے اب نہ تو اُن کا دین، میرا دین ہے اور نہ اُن کی جماعت میری جماعت ہے۔
۴۔ میں نے اپنی ساری جوانی، عیاشی اور شراب نوشی کی نذر کردی اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ یہ برائیاں میرے جسم میں رچ بس گئیں۔
۵۔ خدا نے اپنے فضل و کرم سے مجھے شراب نوشی سے بچالیا اور میرے دل میں اپنا ڈر پیدا کردیا۔ چنانچہ زنا کی بجائے میں نے پارسائی اختیار کرلی اور یوں اپنی شرمگاہ کی حفاظت میں کامیاب ہوگیا۔
۶۔ اب میری خواہش اور ارادہ یہ ہے کہ میں اللہ کی راہ میں جہاد کروں گا۔ اسی طرح میں اس کی رضاکی خاطر۔ روزے رکھوں گا اور حج کروں گا۔