بن عمرو الاصم بن قیس بن مسعود بن عامر بن عمرو بن ابی ربیعہ بن ذہل بن شیبان بن ثعلبہ بن عکابہ بن صعب بن علی بن بکر بن وائل شیبانی: ان کا نام نعمان تھا، لیکن عرف مفروق تھا اور اسی نام سے مشہور ہُوئے۔
ابان بن ثعلب نے عکرمہ سے، انہوں نے ابن عباس سے انہوں نے علی بن ابی طالب سے روایت کی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دورۂ بنو شیبان کے دوران میں ’’اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ‘‘ الخ پڑھی۔ اس محفل میں مثنی بن حارثہ، مفروق بن عمرو ہانئی بن قبیصہ اور نعمان بن شریک موجود تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرف توجہ فرمائی۔ انہوں نے گزارش کی۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ان لوگوں کے علاوہ جو اپنی قوم میں معزز شمار ہوتے ہیں اور کسی سے امداد کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ اس موقعہ پر مفروق بن عمرو نے جو اپنی قوم میں زبان اور جمال میں ممتاز تھا۔ کہنے لگا۔ بخدا، جو کچھ آپ نے پڑھ کر سنایا ہے۔ وہ اہلِ زمین کا کلام نہیں معلوم ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا، تو ہمیں اس کا علم ہوتا۔ اس کے بعد مثنی نے کہا۔ کوئی اور بات جو آپ کہنا چاہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَیْكُمْ‘‘ الخ آیت پڑھی۔ مفروق کہنے لگے۔ اے قریشی بھائی! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکارم اخلاق اور بہترین اعمال کی دعوت دی ہے اور جن لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کی ہے انہوں نے جھک ماری ہے اور سخت غلطی کی ہے۔ مثنی کہنے لگا۔ مَیں نے آپ کی گفتگو سُنی اور جو کچھ آپ نے کہا۔ وہ بہت عمدہ ہے، جسے سُن کر مجھے تعجب بھی ہوا، لیکن مشکل یہ ہے کہ ہم نے کسریٰ سے یہ عہد کیا ہوا ہے کہ نہ تو ہم کوئی نئی بات پیدا کریں گے اور نہ کسی نئی بات پیدا کرنے والے کو اپنے ہاں پناہ دیں گے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس امر کی دعوت دے رہے ہیں، یہ بادشاہوں کو پسند نہیں آئے گی۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے ہیں کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امداد کریں تو بلاشبہ عرب کے قرب و جوار میں ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ بٹانے کو تیار ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تم لوگوں نے سچ کہہ کر بہت اچھا کیا۔ کوئی شخص بھی دین کی اس وقت تک کوئی امداد نہیں کرسکتا۔ جب تک کہ چاروں طرف سے اس کی اعانت کی ذمّہ داری قبول نہ کرے۔ اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر کا ہاتھ پکڑ کر اٹھ کھڑے ہُوئے۔ ابن مندہ اور ابو نعیم نے اس کا ذکر کیا ہے۔ ابو نعیم کہتے ہیں مجھے مفروق کے اسلام کا کوئی علم نہیں۔