یہ صحابی اسلم بن افصی بن حارثہ بن عمرو بن عامر کی اولاد سے ہیں۔ قدیم الاسلام مسلمان ہیں۔ ابو احمد عسکری کے بقول وہ سلمیٰ ہیں، لیکن ایک روایت کے مطابق اسلمی
ہیں۔ انہی کے بارے میں حضور اکرم نے ایک دفعہ فرمایا تھا۔ تم تیر اندازی کرو اور مَیں ابن الادرع کے ساتھ ہوں۔ بصرے میں سکونت پذیر ہوگئے تھے۔ انہوں نے اپنی
مسجد کی حدود بندی کی تھی، طویل عمر پائی تھی۔ ان سے حنظلہ بن علی اور جاء بن ابی رجاء نے روایت کی ہے۔
ہمیں خطیب عبد اللہ بن احمد نے ابو داؤد طیالسی سے اس نے ابو عوانہ سے، اس نے ابو بشر سے اسے عبد اللہ بن شفیق سے اُس نے رجاء جاہلی سے روایت کی کہ ایک دفعہ
محجن نے میرا ہاتھ پکڑا اور مسجد تک لے گیا۔ وہاں مسجد کے دروازے پر بریدہ اسلمی بیٹھا ہوا تھا اور مسجد میں سکبہ نامی ایک شخص طول طویل نماز پڑھ رہا تھا اور
بریدہ اس کا مذاق اُڑا رہا تھا۔ بریدہ نے محجن سے مزاحاً کہا، کیا تم ایسی نماز پڑھنا نہیں چاہتے۔ محجن نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ کہنے لگے، ایک دفعہ حضور اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے مسجد کو لے چلے، وہاں ایک شخص رکوع و سجود میں مصروف تھا۔ حضور اکرم نے پوچھا، یہ کون ہے۔ محجن نے بتایا، یہ فلاں
آدمی ہے۔ اور اُنہوں نے اس کی تعریف و توصیف میں کافی مبالغہ کیا۔ حضور نے فرمایا۔ تم اس کی باتوں پر دھیان مت دو، ورنہ تمہیں تباہ کردے گا۔ جب حضور حجرے کے پاس
پہنچے تو اُن کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ فرمایا۔ دین کی بہترین صورت یہ ہے کہ اس کی آسانی کو نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیا جائے یعنی دین میں آسانی پیدا کی جائے۔ بعدہٗ
جناب محجن بصرے سے مدینے آگئے اور امیر معاویہ کے آخر عہد میں فوت ہوئے تینوں نے اس کی تخریج کی ہے۔