سیّدنا مالک رضی اللہ عنہ
سیّدنا مالک رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن عبداللہ بن سنان بن سرح بن عمرو بن وہب بن الاقیصر بن مالک بن قحافہ بن عامر بن ربیعہ بن عامر بن سعد بن مالک بن بشر بن وہب بن شہران بن عقرس بن خلف بن افتل (یعنی خثعم ابو حکیم الخشعمی) یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے۔ عبدالوہاب بن ابی حبہ نے اپنے اسناد سے جس کا سلسلہ عبداللہ بن احمد تک پہنچتا ہے، بتایا کہ مجھے میرے باپ نے بتایا کہ ہم سے وکیع نے اس نے محمد بن عبداللہ الشیعثی سے ، اس نے لیث بن متوکل سے، اس نے مالک بن عبداللہ الخشعمی سے روایت کی کہ جناب مالک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے،انھوں نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس آدمی کے قدم اللہ کی راہ میں غبار آلود ہوئے۔ اس پر دوزخ کی آگ حرام ہوگئی۔ وکیع نے اسی طرح اس کی روایت کی ہے، لیکن صحیح نام متوکل بن لیث ہے۔
مالک نے یہ حدیث حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنی، بلکہ حضرت جابر سے سنی ہے، جنھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی۔ ہم نے اسے بالتفصیل کتاب الجہاد میں بیان کیا ہے۔ جناب مالک غزوۂ دوم میں لشکر کے امیر تھے اور امیر معاویہ کے عہد کے دوران میں، نیز اس سے پیشتر اور یزید اور عبدالملک بن مروان کے عہد میں متواتر چالیس برس اس منصب پر متعین رہے۔ جب فوت ہوئے تو ان کی قبر پر چالیس سالہ خدمت کی قدردانی کے صلے میں فی سال ایک علم کے حساب سے چالیس علم توڑے گئے یہ صاحب بڑے شب زندہ دار اور صالح آدمی تھے۔ تابعی تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ثابت نہیں۔ واللہ اعلم۔
ابومحمد بن ابوالقاسم الدمشقی نے روایت بیان کی کہ مجھ سے میرے والد نے کہا کہ ان سے ابومحمد بن اکفانی نے کہا کہ اس سے عبدالعزیز الکنانی نے۔ اس سے ابومحمد بن ابو نصر نے اس سے ابوالقاسم بن ابی العقب نے۔ اس سے احمد بن ابراہیم نے اس سے ابن عائد نے کہا کہ ہم سے محمد بن شعیب نے اس سے نصر بن جیب السلامی نے بیان کیا کہ امیر معاویہ نے جناب مالک بن عبداللہ الخشعمی اور عبداللہ بن قیس الفزاری کو لکھا کہ خمس علیحدہ کرتے وقت مالک غنیمت سے بہترین مال میرے لیے منتخب کرلیا جائے۔ عبداللہ نے اس حکم کی تعمیل کی، لیکن مالک نے اسے قابل اعتنا نہ گردانا۔ جب وہ (عبداللہ) امیر معاویہ سے ملنے آئے تو انھیں فوراً باریابی کا موقع مل گیا اور امیر معاویہ، عزت اور احترام سے پیش آئے۔ اس پر عبداللہ نے کہا اے امیر! میں نے آپ کے حکم کی تعمیل کی، لیکن عبداللہ نے نہ کی، میں نے آپ کے قاصد کو فوراً بلالیا اور اسے اچھی اچھی اشیاء کے انتخاب کی اجازت دے دی، امیر نے کہا: ہاں یہ درست ہے تو نے خدا کا حکم نہ مانا، لیکن میرا حکم مان لیا، مالک نے خدا کا حکم مانا، لیکن میرے علم کی پرواہ نہ کی۔ جب جناب مالک دربار میں داخل ہوئے تو امیر نے دریافت کیا تم نے کیوں میرے حکم کی تعمیل نہیں کی، انھوں نے جواب دیا خدا ہم دونوں کو غرق کرے کیا تو یہ چاہتا ہے کہ تو جہنم کے ایک کونے میں گھسا بیٹھا ہوا اور دوسرے کونے میں فرشتوں نے مجھے جکڑ رکھا ہو تو مجھ پر لعنت بھیجے میں اسے تیرا فعل قرار دوں اور تو اسے میرا فعل قرار دے۔ ابن مندہ کا قول ہے کہ امام بخاری نے مالک بن عبداللہ بن سنان اور مالک بن عبداللہ الخزاعی کو جس کا ذکر بعد میں آتا ہے۔ علیحدہ علیحدہ دو مختلف آدمی بیان کیا ہے۔ تینوں نے اس کی تخریج کی ہے۔
ابن مندہ کے اس قول سے مترشح ہوتا ہے کہ یہ دونوں آدمی حقیقتاً ایک ہیں۔ حالانکہ یہ وہم ہے بلاشبہ یہ دو مختلف آدمی ہیں اور دونوں اتنے معروف آدمی ہیں کہ انھیں ایک سمجھ لینا بالکل غلط ہے۔ اختلاف صرف اس امر میں ہے کہ آیا اول الذکر صحابی تھے یا نہیں۔