سیّدنا مالک رضی اللہ عنہ
سیّدنا مالک رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن التیہان بن مالک بن عبید بن عمرو بن عبدالاعلم بن زعوراء بن جشم بن حارث بن خزرج بن عمرو (یعنی النبیت بن مالک بن اوس انصاری الاوسی مراد ہے) ایک روایت کی رو سے وہ بلی بن عمرو بن الحاف ابن قضاعہ کے قبیلے سے ہے۔ جو بنو عبدالاشہل کے حلیف تھے اور مالک بن التیہان ان چھ انصار میں شامل تھے۔ جنھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عقبہ اول اور ثانی میں ملاقات کی تھی اور بنو عبدالاشہل کی روایت کے مطابق مالک رضی اللہ عنہ پہلے انصاری ہیں جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی، بنو النجار کا قول ہے کہ اسعد بن زرارہ نے سب سے پہلے بیعت کی، بنو سلمہ کی رائے میں یہ اعزاز کعب بن مالک کو نصیب ہوا ایک اور روایت کے مطابق البراء بن معرور نے اول از ہمہ بیعت کی۔ مالک اور اسید بن حضیر بنو عبدالاشہل کے نقیب تھے۔ اول الذکر بدر و احد کے علاوہ تمام غزوات میں شریک رہے اور حضرت عمر کے دورِ خلافت میں بہ مقامِ مدینہ ۲۰ یا ۲۱ ہجری میں وفات پائی۔ ایک روایت ہے کہ جنگ صفین میں حضرت علی کرم اللہ وجہ کے لشکر میں تھے اور ۳۷ ہجری میں مارے گئے ایک روایت کے مطابق جنگ صفین کے بعد کچھ عرصہ زندہ رہ کر فوت ہوئے۔ اصمعی سے منقول ہے کہ انھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حینِ حیات میں وفات پائی، لیکن یہ غلط ہے۔
احمد بن عثمان بن ابی اور حسن بن یوحن الباوری سے مروی ہے کہ ہمیں محمد بن عبدالواحد بن عبدالرحمان النیلی الاصفہانی نے بتایا کہ ہمیں ابوالقاسم احمد بن منصور الخلیلی البلخی نے اور انھیں ابوالقاسم علی بن محمد الخزاعی نے اور انھیں ابوسعید الہیثم بن مکیب بن شریح بن معقل الشاشی نے انھیں ابوعیسی محمد بن عیسی الترمذی نے انھیں محمد بن اسماعیل بن آدم بن ابی ایاس نے انھیں شیبان ابی معاویہ نے اور انھیں عبدالملک بن عمیر نے ابوسلمہ سے اور اس نے ا بوہریرہ سے روایت کی کہ ایک موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے وقت میں گھر سے باہر نکلے کہ اس وقت گھر سے نکلنا اور ملنا ملانا آپ کے معمول کے خلاف تھا اتنے میں حضرت ابوبکر بھی وہاں آگئے ابوہریرہ نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو انھوں نے کہا حضور اکرم سے ملنے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت اور سلام و دعا کے لیے آیا ہوں، جلد ی ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی آگئے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، کہو عمر! کیسے آئے، انھوں نے گزارش کی یارسول اللہ! بھوک نے لاچار کر رکھا ہے، آپ نے فرمایا میرا بھی تقریباً یہی حال ہے۔ اس پر آپ اپنے رفقا کے ساتھ ابوالہیثم بن التیہان انصاری کے گھر کی طرف چل دیے۔ جن کے پاس کھجوروں کے باغ تھے اوربکریوں کے ریوڑ، وہ گھر پر موجود نہ تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بیوی سے خاوند کے بارے میں دریافت کیا، تو خاتون نے جواب دیا کہ کنویں سے پانی لینے گئے ہیں، تھوڑی ہی دیر کے بعد وہ تازہ پانی کا مشکیزہ بھر لائے اور مہمانوں کو مرحبا کہہ کر ساتھ لیا اور کھجوروں کے باغ میں لے گئے زمین پر فرش بچھا کر مہمانوں کو بٹھایا اور ایک درخت سے کھجوروں کا ایک خوشہ اتار لائے اور سامنے رکھ دیا اور عرض کیا کہ تناول فرمائیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوالہیثم! تم نے نیم پختہ اور پختہ کھجوروں کو علیحدہ علیحدہ کیوں نہیں کیا، انھوں نے عرض کیا یارسول اللہ! میری خواہش تھی کہ آپ خود حسبِ ذوق انتخاب فرماکر نوش جان فرمائیں، چنانچہ تمام حضرات نے سیر ہوکر کھایا اور ٹھنڈا پانی پیا، بعد از فراغت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رفقا سے مخاطب ہوکر فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے یہی وہ نعمتیں ہیں جن کے بارے میں قیامت کے دن تم سے پوچھ گچ کی جائے گی یعنی ٹھنڈی چھاؤں، پاکیزہ کھجوریں اور میٹھا پانی، اس کی تخریج تینوں نے کی ہے۔