بن عوف الاشجعی: ایک روایت میں ابو عوف ہے۔ ابوموسیٰ نے (کتابۃً) ہمیں بتایا کہ اس نے اپنے باپ کی زبانی سنا کہ ہمیں سلیمان بن ابراہیم نے۔ اسے علی بن محمد
الفقیہ نے، اسے احمد بن محمد بن ابراہیم نے، اسے محمد بن عبدالوہاب نے، اسے آدم بن ابو ایاس نے اسے عاصم بن محمد بن زید بن عبداللہ بن عمر نے، اسے عبداللہ بن
ولید نے، محمد بن اسحاق سے جو آلِ قیس بن مخرمہ کا آزاد کردہ غلام تھا۔ بیان کیا کہ مالک الاشجعی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض
کیا: ’’یارسول اللہ! میرا بیٹا عوف قید میں ہے۔‘‘ حضور نے فرمایا؛ اسے کہلا بھیجو کہ کثرت سے لاحول ولا قوۃ کا ورد کرے۔ دشمنوں نے انہیں چمڑے میں جکڑ رکھا تھا
اس ورد سے وہ ان کے جسم سے علیحدہ ہوکر گر پڑا، ان کی ایک اونٹی پاس کھڑی تھی، اس پر سوار ہوکر بھاگ کھڑے ہوئے۔ جب ان لوگوں کے گھر کے پاس سے (جنھوں نے انھیں
قید کیا ہوا تھا) گزرے تو زور سے نعرہ مارا وہ سب ان کے پیچھے اٹھ دوڑے تاآنکہ وہ اپنے گھر کے دروازہ پر پہنچ گئے۔ جب ان کے والد نے ان کی آواز سنی، تو خوشی سے
اچھل پڑے۔ اس پر آیت اتری: وَمَنْ یَّتَّقِ اللہَ یَجْعَلْ لَہٗ مَخْرَجًا: (جو اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اس کے بچاؤ کی کوئی صورت پیدا کردیتا ہے۔)
السدی راوی ہے کہ عوف بن مالک کا بیٹا قید تھا۔ اور سالم بن ابی الجعدان کی روایت ہے کہ بنو الشجع کے ایک آدمی کے لڑکے کو دشمنوں نے قید کرلیا۔ اس کا باپ حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا۔ (راوی نے دونوں کا نام نہیں بیان کیا۔)
مسعر نے علی بن ندیمہ سے، اس نے ابوعبیدہ سے روایت بیان کی کہ ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گزارش کی، کہ فلاں قبیلے ے میری بکریاں چرالی ہیں،
فرمایا: خدا کے دربار میں عرض کر، یا کوئی اور بات اس سے ملتی جلتی فرمائی ابوموسیٰ نے اس کی تخریج کی ہے۔