سیّدنا مالک رضی اللہ عنہ
سیّدنا مالک رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن عوف بن سعد بن ربیعہ بن یربوع بن وائلہ بن دہمان بن نصر بن معاویہ بن بکر ہوازن النصری: ان کی کنیت ابو علی تھی۔ یہ صاحب جنگ حنین میں لشکر کفار کے سردار تھے۔ جب مسلمانوں کی شکست کے بعد کفار کو شکست ہوئی۔ ہمیں ابو جعفر نے اپنے اس اسناد سے جو یونس تک پہنچتا ہے۔ ابن اسحاق سے یوں روایت کی اس نے بتایا کہ اسے عاصم بن عمر بن قتادہ نے عبدالرحمٰن بن جابر سے اس نے اپنے باپ جابر بن عبداللہ اور عمرو بن شعیب، زہری، عبداللہ بن ابی بکر بن عمرو بن حزم اور عبداللہ بن مکرم بن عبدالرحمٰن ثقفی سے حنین کی جنگ کے بارے میں سنا جب حضور اکرم حنین کی جنگ کے لیے ان کی طرف روانہ ہوئے۔ اور وہ مقابلے کے لیے حضور کی طرف بڑھے، اس بارے میں ان کے بیانات مختلف ہیں،لیکن اس امر پر سب متفق ہیں کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ سے فارغ ہوئے۔ تو مالک بن عوف نصری نے بنو نصر، بنو حشم، بنو سعد، بنو بکر اور بنو بلال کے بعض فوجی دستے جمع کیے اور بنو عمر و عامر کے کچھ لوگ اور عوف بن عامر بنو مالک اور بنو ثقیف کے حلیف بھی جمع ہوگئے۔ پھر وہ سب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ آور ہونے کے لیے روانہ ہوئے۔ میدان جنگ میں پہنچ کر مالک بن عوف نے اپنے لشکر سے کہا، جب تم دشمن کو دیکھو تو اپنی تلواروں کے نیام توڑ دو، اور مسلمانوں پر اس طرح حملہ کرو کہ ان کے پاؤں اکھڑ جائیں۔
اس کے بعد ابن اسحاق کہتا ہے کہ مجھ سے عاصم نے اور اُس نے عبدالرحمان بن جابر سے اس نے اپنے والد جابر سے یوں روایت کی کہ والد نے وادیٔ طاس کی گھاٹیوں میں اپنے لشکر کو ادھر اُدھر چھپادیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو مسلمانوں کو ساتھ لیے صبح کے چھٹ پٹے میں وادی میں اُترے۔ ناگہاں کفار کے سواروں نے مسلمانوں پر حملہ کردیا اور مسلمان بدحواسی میں تتر بتر ہوگئے۔ چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چند افراد اہل بیت کے اور کچھ آدمی صحابہ سے رہ گئے۔ اس کے بعد آپ نے اپنے دائیں طرف منہ کرکے فرمایا: ’’اے لوگو! میں اللہ کا رسول ہوں، میں محمد بن عبداللہ ہوں۔‘‘ اس کے بعد آپ نے حضرت عباس کو حکم دیا کہ اسلامی لشکر کو آواز دو کہ وہ میدانِ جنگ کی طرف مڑیں۔ حضرت عباس نے بہ آواز بلند پکارا ’’اے انصار! اے مہاجرین!‘‘ یہ آواز ان کے کان میں پڑنے کی دیر تھی کہ مسلمان لبیک لبیک کہتے واپس مڑے۔ میدانِ جنگ میں پہنچنے کی دیر تھی کہ حضور کے اردگرد قیدیوں کے ٹھٹھہ کے ٹھٹھ جمع کردیے گئے۔
ایک روایت میں ہے کہ مالک بن عوف اپنے گھوڑے حجاج پر سوار ہوکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ آور ہوا، لیکن گھوڑا اڑ کر کھڑا ہوگیا اور اپنی جگہ سے ذرا نہ ہلا۔ اس نے گھوڑے سے مخاطب ہوکر کہا:
۱۔ |
اَقْدِمْ مَجَاجْ اِنَّہٗ یَوْمَ نکر |
مِثْلِیْ عَلٰی مِثْلِکَ یَحْمِیْ وَیُکر |
ترجمہ: اے حجاج قدم آگے بڑھا کہ آج بڑا سخت دن ہے۔ میرے جیسا آدمی تجھ جیسے گھوڑے پر سوار ہوکر اپنا بچاؤ کرتا ہے اور دشمن پر بار بار حملہ آور ہوتا ہے۔
۲۔ |
وَیُطْعِنُ الطَعْنَۃَ تَھْوِیْ وَتَھرُ |
لَھَا مِنَ الْجَوْفِ نَجِیْعٌ مُنْھمر |
ترجمہ: وہ گھوڑے پر سوار ہوکر نیزے سے اوپر اور نیچے زخم لگاتا ہےا ور دشمن کے پیٹ سے سیاہ رنگ کا خون جاری کردیتا ہے۔
۳۔ |
وَیُقَلِّبُ الْعَامِلَ فِیْحَا مِنْکُسر |
اذا اخز الَتْ زَمَرَ بَعْدَ زَمَر |
ترجمہ: اور جنگ میں وہ بہادر سپاہی کو عاجز کردیتا ہے، جب لوگ جوق در جوق رسوا اور ذلیل کردیے جاتے ہیں۔
جب مشرکین جنگ میں شکست کھاکر بھاگ کھڑے ہوئے تو مالک بن عوف طائف چلا گیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا اگر مالک بن عوف اسلام قبول کرکے میرے پاس آجائے۔ تو میں اس کے اہل و عیال اور مال و متاع کو اس کے سپرد کردوں گا جب مالک کو یہ خبر پہنچی تو وہ مسلمان ہوگیااور حضور صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ سے روانہ ہونے کو تھے کہ مالک حاضر ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سو اونٹ عنایت کیے، جس طرح کہ باقی مولفۃ القلوب کو عنایت فرمائے تھے۔ بعد میں یہ شخص پکا اور مخلص مسلمان ثابت ہوا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی قوم اور قیس غیلان کے قبائل کا عامل مقرر فرمادیا۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں طائف پر چڑھائی کا حکم دیا۔ جس کی انھوں نے تعمیل کی، اور اہلِ طائف گھبرا اُٹھے۔ اسلام لانے سے پہلے انھوں نے مندرجہ ذیل دو شعر کہے تھے۔
۱۔ |
مَا اِنْ رَاَیْتُ وَلَا سَمِعْتُ بِمَا اَرَی |
فِی النَّاسِ کُلِّھِمْ بِمِثْلِ مُحَمَّدْ |
ترجمہ: جیسا کہ میرا اندازہ ہے نہ تو میں نے دیکھا اور نہ سنا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح کا کوئی آدمی تمام انسانوں میں۔
۱۔ |
اَوْفٰی وَاَعْطٰی لِلْجِزَیْلِ اِذْ اجْتَدَیٰ |
وَمَتٰی تشا بُخْبِرْکَ عَمَّا فِیْ غَدٖ |
ترجمہ: آپ بڑے باوفا ہیں اور جب بخشنے پر آئیں،تو بہت بڑے کریم ہیں اور اگر تو چاہے تو تجھے کل پیش آنے والے واقعات سے آگاہ کردیں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفا کے بعد جناب مالک رضی اللہ عنہ فتح دمشق اور حضرت سعد بن ابی وقاص کی کمان میں جنگ قادسیہ میں بھی شریک تھے۔ تینوں نے اس کی تخریج کی ہے۔