سیّدنا مالک بن مالک الجنی رضی اللہ عنہ
سیّدنا مالک بن مالک الجنی رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
محمد بن خلیفۃ الاسدی نے حسن بن محمد سے اس نے اپنے باپ سے روایت کی، کہ ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس سے کہا کہ میں آپ کو ایک ایسی بات سناتا ہوں، جسے سن کر آپ کو تعجب ہوگا مجھے خریم بن فاتک الاسدی نے بتایا کہ میں ایک دفعہ ایک اونٹ کی تلاش میں گھر سے نکلا۔ وہ مجھے ابرق الغزاف کے مقام پر مل گیا۔ میں نے اسے رسی سے باندھ دیا، اور اس کی اگلی ٹانگوں پر تکیہ لگاکر بیٹھ گیا۔ یہ اس زمانے کا واقعہ ہے جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تھی، میں نے کہا میں اس وادی کے بڑے جن سے پناہ مانگتا ہوں اور لوگ اسی طرح کہا کرتے تھے اتنے میں ہاتف کی آواز آئی جو کہہ رہا تھا:
۱۔ |
وَیُحکَ عَذبًا لِلہِ ذِی الْجَلَالِ
|
مُنَزِّلُ الحَرَامِ وَالْحَلَالٖ
|
ترجمہ: تیرا بھلا نہ ہو، تو خدائے ذوالجلال کے لیے یہ بات کہنے سے رک جا۔ کیونکہ وہی حلال و حرام کے احکام نازل کرنے والا ہے۔
۲۔ |
وَوَحِّدَ اللہ وَلا تَبَالِیْ
|
مَاھَوْلُ ذِی الْجِنِّ مِنَ الْاَھُوَالِ
|
ترجمہ: تم خدا کو ایک تسلیم کرو اور کسی کی پرواہ نہ کرو۔ جنوں کے ڈر کی بھلا کیا حیثیت ہے۔
اس کے علاوہ بھی اس نے بہت کچھ کہا تھا، میں نے جواباً کہا:
۳۔ |
یَااَیُّھَا الْھَاتِفُ مَا تَحِیْلُ
|
اَوْ شُدٌ عَنْکَ اَمْ تَضْلِیْلْ
|
ترجمہ: اے ہاتف تم نے یہ کیا چکر چلایا ہوا ہے، تم میری راہنمائی کرنا چاہتے ہو یا راہِ راست سے بھٹکانا چاہتے ہو۔ ہاتف نے جواب میں کہا:
۱۔ |
ھَذَا رَسُوْلِ اللہِ ذُو الْخِیْرَاتِ
|
جَاءَ بیاسُبن وَحَامِیْمَاتٖ
|
ترجمہ: یہ اللہ کے رسول ہیں، جو بڑی خوبیوں کے مالک ہیں۔ جو یاسین اور حامیم لے کر آئے ہیں۔
۲۔ |
وَسُور بَعْدَ مُفَصَّلَاتٖ
|
مُحَرَّمَاتٍ وُمُحَلَّاتٖ
|
ترجمہ: اور مفصل سورتوں کے علاوہ اور سورتیں بھی لائے جن میں حرام حلال (جائز ناجائز) کی فہرست دی گئی ہے۔
۳۔ |
یَامُرُ بِالصَّوْمِ وَبِالصَّلٰوۃ
|
وَیَزْجَرُ النَّاسَ عَنِ الْھَنَّاتٖ
|
ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو نماز روزے کا حکم دیتے ہیں اور انہیں لہو لعب سے روکتے ہیں۔
ان اشعار کے بعد میں نے اس سے پوچھا تم کون ہو، اس نے کہا میں مالک بن مالک ہوں، مجھے حضور اکرم نے نصبین (نجد) کے جنوں کی طرف قاصد بناکر بھیجا تھا، میں نے کہا کہ اگر ایسا کوئی شخص ہو جو مجھے اپنا یہ اونٹ دے دے تاکہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر اسلام قبول کرلوں، اس نے کہا: میں یہ اونٹ اس شرط پر تمہیں دیتا ہوں کہ تم یہ امانت صحیح سلامت اس کے مالک کے گھر پہنچادو، میں مدینے میں حضور کی خدمت مین اس وقت پہنچا، جب لوگ نماز جمعہ ادا کرنے کو جار ہے تھے جب میں نے اپنی سواری کو بٹھایا تو حضرت ابوذر مسجد نبوی سے نکلے اور مجھے مسجد میں داخل ہونے کو کہا مجھے دیکھ کر حضور اکرم نے فرمایا کیا تمہیں علم ہے کہ جس شخص کو تم نے اونٹ دیا تھا اس نے اُسے صحیح سالم تمہارے گھر پہنچادیا ہے میں نے کہا اللہ اسے نیک بدلہ دے، حضور نے اس پر آمین کہی، میں ایمان لے آیا اور میں نے اپنے طور اطوار بدل لیے۔ ابوموسیٰ نے اس کی تخریج کی۔