سیّدنا مالک بن نمط الہمدانی رضی ا للہ عنہ
سیّدنا مالک بن نمط الہمدانی رضی ا للہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
خارفی، الیامی، ارحبی (حسب روایت مختلفہ) ابن الکلبی کے قول کے مطابق ان کا نام نمط بن قیس بن مالک بن سعد بن مالک بن لائی بن سلمان بن معاویہ بن سفیان بن ارحب اور اس کا نام مرہ بن دعام بن مالک بن معاویہ بن صعب بن دومان بن بکیل بن جشم بن حیوان بن نوف بن ہمدان ہے اور ان کی کنیت ابو ثور ہے۔ یہ صاحب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ایک فرمان لکھ کر دیا جس میں انھیں جاگیر دی گئی تھی۔
ان کی حدیث کو غریب احادیث جمع کرنے والوں اور اہل الاخبار نے اس کی غرابت کی وجہ سے مفصلاًبیان کیا ہے لیکن محدثین کی حدیث مختصر ہے۔ ابواسحاق ہمدانی سے مروی ہے کہ ہمدان کا وفد حضور کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جن میں ابوثور مالک بن نمط بھی تھے (ان کے لمبے لمبے بال تھے) ان کے علاوہ مالک بن الیفع۔ صمام بن مالک السلمانی اور عمیرہ بن مالک الخارفی بھی تھے۔ انھوں نے حضور سے اس وقت ملاقات کی۔ جب آپ تبوک سے واپس آ رہے تھے۔ ان لوگوں نے لکیر دار یمنی چادریں اور عدنی پگڑیاں باندھ رکھی تھیں اور مہری اور ارجی اونٹنیوں پر سوار تھے۔ اس موقع پر جناب مالک بن نمط درج ذیل رجزیہ اشعار پڑھ رہے تھے۔
اِلَیْکَ جَا وَزْتَ سَوَاد الرِّیف
فِیْ ھَیْوَاتَ الصَّیْفِ وَالخریفٖ
مُخَطَّمَاتٌ بِجِبَال اللّطیف
۱۔ ہم آپ کی خدمت میں ایسے علاقے سے آئے ہیں۔ جس کی بعض ز مینوں میں فصلیں ہیں اور کچھ بنجر ہیں۔
۲۔ وہاں گرمیوں اور سردیوں میں غبار آلود ہوائیں چلتی ہیں۔
۳۔ ایسی اونٹنیوں پر سوار ہوکر آئے ہیں۔ جن کی ناک میں کھجور کی چھال کی مہاریں ہیں۔
اس کے علاوہ بھی جناب مالک نے اپنے بہت سے فصیح و بلیغ اشعار سنائے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل وفد کو ایک فرمان لکھ کر دیا۔ جس میں انہیں وہ جاگیریں عطا کیں، جو انھوں نے مانگیں۔ جناب مالک بن نمط کو ان کا امیر مقرر فرمایا اور جو لوگ مسلمان ہوگئے تھے انھیں ان کا عامل مقرر کردیا تھا اور بنو ثقیف کے خلاف انھیں جہاد کا حکم دیا۔ چنانچہ جب بھی ان کا کوئی دستہ فوج باہر نکلتا۔ اس پر حملہ ہوجاتا۔
۱۔ |
ذَکَرْتُ رَسُوْلَ اللہِ فِی فَحْمَۃِ الدجی
|
وَنَحْنُ بِاَعْلٰی رَحْرحَانٍ وَصَلدَدٖ
|
ترجمہ: میں نے کفر کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت یاد کیا جب کہ ہم رحرحان (پہاڑ) اور اس کی چٹانوں کی چوٹی پر تھے۔
۲۔ |
وَھُنُّ بَنَا خُوْصٌ طَلَامح تعتلی
|
برکبا نھا فی لاحب متمدد
|
ترجمہ: ہماری اونٹنیاں ہمیں نشیب میں لا رہی تھیں اور تھک گئی تھیں۔ یہ اونٹنیاں اپنے سواروں کو لیے صاف اور کشادہ راہوں کی طرف بڑھی جا رہی تھیں۔
۳۔ |
عَلٰی کُلِّ قَتْلَاءِ الَّذَواعَیْنَ جَعْدَۃٌ
|
فَمَرَّ بِنَا مَرَّ الجِیْفِ الَخَفِیْدَدٖ
|
ترجمہ: ان کی مضبوط ٹانگوں پر گھنے بال تھے اور وہ ہمیں یوں اڑائے لیے جا رہی تھیں جس طرح کہ تیز رفتار شتر مرغ بھاگتا ہے۔
۴۔ |
حَلَفْتُ بِرَبَّ الرَّاقِصَاتِ اِلٰی منیٰ
|
صَوَادِرَ بالرُکْبَانَ مِنْ قَضْبِ تَرُددٖ
|
ترجمہ: میں ان تیز رفتار اونٹنیوں کے ساتھ منی کو چل دیا اور اپنے ہم سفر سواروں کے ساتھ تہ بہ تہ گھٹا سے سیراب ہوئے۔
۵۔ |
بِاَنَّ رَسُوْلَ اللہِ فِیْنَا مُصَدَّقٌ
|
رَسُوْلٌ اَتی مِنْ عِنْدِ ذِی الْعَرْشِ مُھَتَدِی
|
ترجمہ: ہمیں بتایا گیا کہ رسول کریم جو ہم میں موجود ہیں، وہ صادق ہیں اور آپ ہی وہ رسول ہیں، جو راہِ راست دکھانے والے خدا کی طرف سے فرستادہ ہیں۔
۶۔ |
لَمَا حَمَلتُ مِنْ نَاقَۃٍ فَرْقَ رَحْلِھَا
|
اَشَدَّ عَلٰی اَعْدَائِہٖ مِنْ مُحَمَّدٖ
|
ترجمہ: آج تک کسی اونٹنی کے کجاوے سے، کسی شخص نے اپنے دشمنوں پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سخت تر حملہ نہیں کیا۔
۷۔ |
وَاَعطٰی اِذا مَا طَالِبُ الْعُرَفٖ جَاءَہَ
|
وَاَمْضٰی بِحَدِّ الشرِفِیِّ الْمَھنَّدٖ
|
ترجمہ: جب بھی کوئی مالی امداد مانگنے والا آپ کی خدمت میں آتا ہے تو آپ سے بڑھ کر کوئی کریم نہیں ہوتا اور جب آپ مشرفی ہندی تلوار سے ضرب لگاتے ہیں تو ایسی کاری ضرب اور کوئی نہیں لگاسکتا۔
ہشام الکلبی سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے والے جناب نمط تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنے فرمان میں جو جاگیر عطا کی تھی وہ آج تک ان کے تصرف میں ہے۔ ابو عمر نے ان کی تخریج کی ہے۔