سیّدنا مالک بن نویرۃ رضی اللہ عنہ
سیّدنا مالک بن نویرۃ رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن حمزہ بن شداد بن عبید بن ثعلبہ بن یربوع التمیمی: یربوعی متمم بن نویرہ کا بھائی تھا۔ یہ صاحب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بنو تیمم سے کچھ صدقات وصول کرنے پر مقرر فرمادیا۔
جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے اور کئی عرب مرتد ہوگئے اور سجاح نے خروج کرکے نبوت کا دعویٰ کیا، مالک نے اس سے صلح کرلی، لیکن انھوں نے اسلام کو نہ چھوڑا اور بطاح میں قیام کیا۔ جب خالد بن ولید بنو اسد اور غطفان سے فارغ ہوئے تو وہ مالک کے لیے بطاح پہنچے۔ وہاں سے سب لوگ مالک کے کہنے پر تتر بتر ہوگئے تھے۔ حضرت خالد نے جنگی قیدیوں کو برائے حفاظت تقسیم کردیا۔ اس کے بعد وہ مالک بن نویرہ اور ان کے ہم قبیلہ چند آدمیوں سے ملے۔ خالد بن ولید کا فوجی دستہ ان لوگوں کے بارے میں اختلاف کا شکار ہوگیا۔ ان لوگوں میں ابوقتادہ بھی شامل تھے اور ان کی شہادت یہ تھی کہ اس قبیلے کے لوگوں نے اذانیں دیں اور نمازیں پڑھیں۔ بوجہ اختلاف اس سرد رات کو انھیں بند کردیا گیا۔ بعد میں از جانب خالد بن ولید منادی کرائی گئی اور منادی کرنے والے نے عربی کا ذو معنی لفظ کیا۔ جس کے ایک معنی یہ بھی تھے کہ قیدیوں کو قتل کردو۔ جب شور و غوغا اٹھا اور جنابِ خالد تحقیق حالت کے لیے باہر نکلے، تو مالک بن نویرہ قتل ہوچکے تھے۔ انھوں نے مالک کی بیوی سے نکاح کرلیا۔
جب دربار خلافت میں یہ خبر پہنچی، تو حضرت عمر نے جناب خلیفہ سے اس دست درازی کے خلاف احتجاج کیا اور خلیفہ کو مجبور کیا کہ ان سے انتقام لیا جائے۔ حضرت ابوبکر نے ان کی طرف سے یہ عذر پیش کیا کہ خالد سے یہ فعل غلط فہمی کی بنا پر سرزد ہوا ہے اور میں اس تلوار کو جسے اللہ نے دشمنان دین پر مسلط کر رکھا ہے رسوا نہیں کرنا چاہتا۔ چنانچہ انھوں نے بیت المال سے خون بہا ادا کردیا۔
جب خالد بن ولید دربار خلافت میں پیش ہوئے، تو حضرت عمر نے ان سے کہا: ’’اے اللہ کے دشمن! تم نے ایک مسلمان کو قتل کرکے اس کی بیوی سے بدکاری کی۔ ہم تمہیں سنگسار کریں گے۔ ایک روایت میں ہے کہ جس رات کو مالک اور ان کے رفقاء کو قابو کرلیا گیا تو مسلمانوں نے انھیں کہا کہ اچھا اگر تم سچ کہتے ہو تو ہتھیار رکھ دو اور نماز پڑھ کر دکھاؤ اس پر مالک نے کہا: ’’میں باور نہیں کرسکتا کہ تمہارے آقا نے تمہیں ایسا حکم دیا ہوگا۔‘‘ جنابِ خالد نے کہا: تمہاری اس گفتگو سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری آقا نہیں ہیں۔ چنانچہ اس عذر لنگ کا سہارا لے کر انھیں قتل کرادیا۔
اس ناگوار واقع کے بعد جناب مالک کے بھائی متمم دربارِ خلافت میں آئے اور خون بہا کا دعویٰ کیا۔ جو خلیفہ نے بیت المال سے ادا کردیا اور ان کے قیدی چھوڑ دیے گئے۔ طبری اور کئی اور ائمہ حدیث نے اس واقعہ کو اسی طرح بیان کیا ہے۔ طبری وغیرہ نے صحابہ سے اس واقعہ سے عجیب تر اور مستبعد تر واقعات نقل کیے ہیں۔ اس کا عدمِ ذکر باعثِ تعجب ہے۔
جناب مالک کے ارتداد کے بارے میں اختلاف ہے۔ حضرت عمر نے جناب خالد سے کہا تھا کہ تم نے ایک مسلمان کو قتل کیا ہے اور جناب ابوقتادہ کی شہادت یہ ہے کہ ان لوگوں نے اذانیں دیں اور نمازیں پڑھیں۔ خلیفہ نے ان کے قیدی چھوڑ دیے اور خون بہا بیت المال سے ادا کردیا۔ ان باتوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مالک بن نویرہ مسلمان تھے۔
متمم بن نویرہ نے اپنے بھائی مالک کے بارے میں اپنے خیالات بایں الفاظ بیان کیے ہیں۔ ’’مالک اڑیل گھوڑوں اور سست قدم اونٹوں پر اندھیری سرد راتوں میں سوار ہوکر پانی سے بھری مشکیں لیے نکلتا۔ اس نے تنگ سا جبہ اوڑھا ہوتا اور خطی نیزہ اپنی ران اور رکاب کے درمیان اُڑس کر رکھا ہوتا۔ رات بھر چلتا رہتا اور جب صبح ہوتی تو اس کا چہرہ اس طرح مسکرا رہا ہوتا گویا چاند کا ٹکڑا ہے۔ اللہ اس پر رحم فرمائے۔