ایک روایت میں قحطم آیا ہے، جو ابو العشراء دارمی کے والد تھے۔ ابو العشراء اور اُن کے والد کے ناموں کے بارے میں اختلاف ہے۔ امام بخاری ان کا نام اسامہ بتاتے
ہیں اور والد کا نام مالک بن قحطم۔ یہ روایت امام احمد بن حنبل کی ہے۔ ایک روایت کی رو سے ان ک نام عطار دبن بلر قال تھا۔ بعض لوگ کہتے ہیں ان کا نام یسار ن بلز
بن مسعود بن خولی بن حرملہ بن قتادہ تھا (جو بنو مولہ بن عبداللہ بن فقیم بن دلرم سے تھا) جو بصرہ میں رہتا تھا (یہ ساری روایت ابوالعشراء کے بارے میں امام
بخاری سے منقول ہے)۔
امام احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین نے لکھا ہے کہ ابوالعشراء کا نام اسامہ بن مالک تھا۔ ابو عمر کا قول ہے کہ ابوالعشراء کا نام بکر بن قہطم تھا۔ اور ایک
روایت میں عطاء بن برز آیا ہے۔ (یہ فتحہ را و سکونِ را) یہ شخص بنو دلرم بن مالک بن زید مناہ بن تمیم سے تھا (یہ کلام ابو عمر کا ہے) امام بخاری اور احمد بن
حنبل وغیرہ کی رائے ہم لکھ آئے ہیں۔ فی الجملہ اس نام کے بارے میں کافی اختلا ف پایا جاتا ہے۔
ہمیں خطیب عبداللہ بن احمد بن عبدالقاہر طوسی نے اسے ابو محمد جعفر بن احمد بن الحسین نے اسے حسن بن احمد ابراہیم بن شادان نے اسے عثمان بن احمد بن سماک نے اسے
حسن بن سلام نے اسے عثمان نے اُسے حماد بن سلمہ نے اور اسے ابوالعشراء نے اور اسے اس کے والد نے بتایا کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض
کیا یارسول اللہ! کیا سوائے حلق اور لبہ (وہ مقام جہاں گردن کے نچلے حصے میں ایک گڑھا ہوتا ہے) کے ذبح کرنے کی اور کوئی صورت بھی ہے، آپ نے فرمایا اگر تو ران پر
زخم لگادے، تو اسے بھی ذبح سمجھا جائے گا۔ عفان سے روایت ہے میں نے ابوالعشراء کو کہتے سنا۔ بخدا اگر تو اس کی ران پر وار کرے گا۔ تو تیرے لیے یہ جائز ہوگا۔
ابوالعشراء نے اپنے والد سے اس کے سوا اور کوئی حدیث بیان نہیں کی۔ ان سے حماد نے یہ حدیث سنی اور ان سے آئمہ حدیث، سفیان ثوری اور شعبہ وغیرہ نے روایت کی۔
تینوں نے اس کی تخریج کی ہے۔