سیدنا مالک رضی اللہ عنہ
سیدنا مالک رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن صعصعۃ الانصاری الخزرجی المازنی: ان کا تعلق مازن بن بخار سے تھا۔ یحییٰ بن محمود نے اس اسناد سےجو ابوالحسین مسلم بن حجاج تک جاتا ہے بیان کیا کہ ہم سے محمد بن منشی نے اس سے محمد بن ابی عدی نے اس نے سعید سے اس نے قتادہ سے، اس نے انس بن مالک سے اس نے مالک بن صعصعہ سے، جو ان کے قبیلے سے تعلق رکھتا تھاسنا! اس نے کہا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپ بیداری اور نیند سے ملتی جلتی حالت میں کعبے کے پاس تھے۔ کہ حضور نے سنا کہ ایک شخص دو (ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہ) کے درمیان تیسرے کو بلا رہا ہے آپ اس کے ساتھ چل دیے پھر سونے کا ایک تھال لایا گیا جس میں آب زمزم تھا پھر آپ کا سینہ (آپ نے اشارہ کرکے فرمایا) یہاں سے وہاں تک کھولایا گیا جناب قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے ساتھی سے پوچھا کہ حضور کا اس سے کیا مقصد تھا اس نے جواب دیا کہ حضور کی مراد اسفل بطن تھی (معلوم ہوتا ہے کہ پریس کی غلطی سے اعلیٰ کی جگہ اسفل کا لفظ چھپ گیا ہے، کیونکہ دل کا مقام اوپر سینے میں ہے پیٹ میں نہیں۔ مترجم) پھر اُس نے آپ کا دل نکالا۔ زمزم کے پانی سے دھوکر اسے اپنی جگہ پر رکھ دیا۔ اور ایمان اور حکمت کے انوار سے بھردیا۔ پھر ایک سفید رنگ کی سواری لائے۔ جس کا نام براق تھا، جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا۔ جس کا قدم وہاں پڑتا تھا، جہاں تک آدمی کی نگاہ جاتی تھی حضور کو اس پر سوار کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے آسمان کے دروازے پر پہنچے۔ اور جبریل نے دروازہ کھٹکھٹایا، تو انھوں نے نام و پتہ دریافت کرنے کے بعد دروازہ کھول اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش آمدید کہا، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات آدم علیہ السلام سے ہوئی، تفصیل احادیث میں مذکور ہے۔ دوسرے آسمان میں حضرت عیسیٰ اور حضرت یحییٰ علیہ السلام سے۔ تیسرے میں حضرت یوسف سے چوتھے میں حضرت ادریس علیہ السلام سے اور پانچویں میں حضرت ہارون علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ وہاں سے آگے بڑھے تو چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ سے آمنا سامنا ہوگیا۔ تو انھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور اہلا و سہلاً و مرحبا کہا اور اخ صالح اور بنی صالح کے لقب سے مخاطب کیا۔ جب حضور صلی ا للہ علیہ وسلم انھیں پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کانوں میں رونے کی آواز آئی، عالم قدس سے آواز آئی، موسیٰ! کیوں رو رہے ہو؟ عرض کیا: ’’الہ العالمین! اس جوان کو تو نے میرے بعد نبی بناکر بھیجا لیکن جنت میں ان کی امت کے آدمیوں کی تعدا، میری امت کے آدمیوں سے زیادہ[۱] ہوگی۔ بعدہٗ آپ ساتویں آسمان میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقاتی ہوئے۔ وہ واقعات حدیث میں مذکور ہیں۔
[۱۔ حدیث مخدوش ہے پیغمبر سیاسی لیڈر نہیں ہوتے۔ مترجم]
بعدہٗ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار نہریں، جن میں دو ظاہر اور دو پوشیدہ تھیں، بہتے دیکھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ نہریں کیسی ہیں، جبریل نے کہا باطنی نہریں تو جنت کی دو نہریں ہیں، اور ظاہری نہروں سے مراد دریائے نیل اور دریائے فرات ہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جبریل بیت المعمور تک لے گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا بیت المعمور کیا ہے، جبریل علیہ السلام نے جواب دیا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں روزانہ ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں اور جب باہر نکلتے ہیں تو انھیں پھر دوبارہ یہاں داخل ہونے کا موقعہ نہیں ملتا، آخر میں حضور کے سامنے دو پیالے پیش کیے گئے، ایک میں شراب تھی اور دوسرے میں دودھ، آپ نے دودھ والے پیالے کو پسند کیا، جس کی جبریل علیہ السلام نے تصویب کی، پھر پچاس نمازیں فرض کی گئیں،ا لی آخر القصہ ، تینوں نے تخریج کی ہے۔