بن عمرو بن مالک بن برہہ بن نہشل المجاشی، ابو حفص نے ان کا ذکر کیا ہے۔ یہ وہی صاحب ہیں جن کا ذکر مالک بن بن برہہ کے تحت کیا جاچکا ہے۔ یہ صحابی ایک جماعت کے
ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے کے پاس زور زور سے چیخنے لگ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شور کی وجہ دریافت
کی، تو معلوم ہوا کہ بنو عنبر کا وفد ہے۔ جو ملاقات کے لیے حاضر ہوا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انھیں کہو کہ اندر آجائیں اور آرام کریں، انھوں نے
کہا ہم اپنے سالارِ قافلہ وردان بن مخرم کا انتظار کر رہے ہیں۔ ارکانِ وفد جلدی میں اپنے سردار کو، اپنی سواریوں اور ساز و سامان کی حفاطت کے لیے وہیں چھوڑ آئے
تھے۔ لوگوں نے آپ کی خدمت میں گزارش کی، یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اہل وفد اپنے اس سردار کا انتظار کر رہے ہیں جس نے زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ جب
وہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر آیا۔ اس نے اجازت مانگی اور حضور نے اندر آنے کی اجازت دے دی۔ اتنے میں عینیہ بن حصن، بنو عنبر کے جنگی قیدیوں کو
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لائے، اہلِ وفد نے عرض کیا، یا رسول اللہ! ہم آپ کی خدمت میں بطور مسلمان حاضر ہوئے ہیں۔ اس لیے ہمارے آدمیوں کو جنگی قیدی نہ
گردانا جائے۔ عینیہ بن حصن نے کہا بخدا تم میں سے کسی شخص کو رہائی نہیں ملے گی۔ جب تک وہ اچھائی اور برائی میں تمیز کرنا نہیں سیکھ لیتا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے بنی تمیم میں تم میں سے تین کو آزاد کردوں گا اور تین تمہیں بخش دوں گا۔ اور تین کو گرفتار کروں گا۔ اس پر اقرع بن
حابس نے آپ سے قیدیوں کے بارے میں گفتگو کی۔ چنانچہ فرزوق نے عینیہ بن حصن کے منصب پر اتراتے ہوئے کہا۔
وعند رسول اللہ قام ابن حابس
|
|
بخطۃ اسوار الی المجد حازم
|
ترجمہ: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ابن حابس اس سرزمین میں کھڑا ہوا۔ جو شاہ سواروں کی زمین ہے۔ اور وہ عزت کی طرف احتیاط سے بڑھا۔
۲۔ لہ اطلق الاسری التی فی قبورھا
|
|
مغللۃ اعناقھا فی الشکاھم
|
ترجمہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام ان قیدیوں کو جو ان کی قید میں تھے، چھوڑ دیا اور جن کی گردنوں میں طوق تھے۔ ابوموسیٰ نے اس کی تخریج کی ہے۔