جناب جعفر نے ابنِ اسحاق سے اس نے محمد بن ابراہیم بن حارث التیمی سے یوں روایت کی کہ غزوہ طائف میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ، آپ کی خالہ، فاختہ بن عمرو بن عائذ بن مخزوم کا ایک آزاد کردہ مخنث غلام مانع بھی تھا، یہ شخص کبھی کبھی امہات المومنین کے حضروں میں چلا جایا کرتا تھا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے بے ضرر جانتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال تھا کہ اسے جنسی معاملات کی سوجھ بوجھ نہیں ہے۔ اس لیے حضور معترض نہ ہوتے تھے۔ ایک دفعہ اتفاقاً آپ نے اسی مانع کو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ مخزومی سے کہتے سنا: ’’خالد! اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ سلم طائف کو فتح کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو باردیہ بنت غیلان بن سلمہ کو ہاتھ سے نہ جانے دینا، کیونکہ جب وہ روبرو ہوتی ہے تو اس کے ساتھ چار ہوتے ہیں اور جب وہ پیٹھ پھیرتی ہے تو اس کے ساتھ آٹھ ہوتے ہیں‘‘۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ شخص ان معاملات کو سمجھتا ہے (ایک روایت میں ہے کہ مانع کی یہ گفتگو، عبداللہ بن ابی امیہ سے ہوئی، آپ نے امہات المومنین کو ہدایت فرمائی کہ مانع کو آئندہ اپنے حجروں میں آنے کی اجازت نہ دیں محمد بن منکدر اور صفوان بن سلیم سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر نے اپنے دورِ خلافت میں مانع کو جلا وطن کرکے بہ مقامِ فدک بھیج دیا جہاں وہ بالکل تنہا رہتا تھا۔