بن سلمہ بن ضمضم بن سعد بن مرہ بن ذہل بن شیبان بن ثعلبہ بن عکابہ بن صعب بن علی بن بکر بن وائل ربعی شیبانی، یہ صاحب اپنے قبیلے کے وفد کے ساتھ حضور اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ۹ ہجری میں حاضر ہوئے۔ حضرت ابوبکر نے اپنی خلافت کے ابتدائی ایام میں خالد بن ولید سے پہلے عراق پر حملہ کرنے کے لیے اُنھیں روانہ
کیا۔ یہی وہ صاحب ہیں جنھوں نے خلیفہ اور مسلمانوں کو ایران پر چڑھائی کے لیے اُکسایا اور بتایا کہ یہ کام بالکل آسان ہے۔ یہ صحابی بڑے بہادر، دلیر، جید الفکر
اور صائب الرای تھے۔ ایرانیوں کے خلاف لڑائیوں میں اُنھوں نے بڑے مصائب اور تکالیف برداشت کیں۔
جب حضرت عمر خلیفہ ہوئے تو انھوں نے مختار الثقفی کے والد ابوعبید بن مسعود الثقفی کو مثنی بن حارثہ کی مدد کو روانہ کیا۔ دونوں لشکروں نے جمع ہوکر قس ناطف کے
مقام پر ایرانیوں پر حملہ کردیا۔ جس میں ابو عبید شہید ہوگئے اور مثنی بن حارثہ زخمی ہوگئے اور جنگ قادسیہ سے پہلے اسی زخم سے فوت ہوگئے۔ یہ وہی صاحب ہیں جن کی
بیوہ سے سعد بن ابی وقاص نے نکاح کرلیا تھا۔ اسی خاتون نے جب قادسیہ میں ایرانیوں کو حملہ کرتے دیکھا تو عربوں کے انداز میں اپنے مرحوم شوہر کو آواز دی:
وامثیناہ! (افسوس کہ مسلمانوں میں آج دوسرا مثنی موجود نہیں ہے) جناب سعد نے سنا تو خاتون کو ایک تھپڑ لگایا اور پوچھا ’’تم نے یہ فقرہ مجھے غیرت دلانے کے لیے
استعمال کیا ہے یا مجھے میری بزدلی کا طعنہ دے رہی ہو۔ چنانچہ اَغَیْرۃً وجنبا عربوں میں ضرب المثل بن گیا۔
جناب مثنی بن حارثہ نے ایرانیوں پر تابڑ توڑ اتنے حملے کیے کہ ہر طرف ان کی ب ہادری کی دھاک بندھ گئی۔ حضرت ابوبکر نے دریافت کیا۔ یہ شخص جس کے کارناموں کی
خبریں ہم تک پہنچ رہی ہیں، کون ہے۔ ہم اس کے حسب نسب سے ناواقف ہیں۔ قیس بن عاصم نے گزارش کی اے خلیفۃ الرسول! یہ شخص نہ تو گم نام ہے اور نہ مجہول النسب، نہ اس
کے اہل قبیلہ تھوڑے ہیں اور نہ اس کی ماڑ دھاڑ میں کمی ہے۔ یہ شخص مثنی بن حارثہ شیبانی ہے۔
جب وہ خلیفہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو جناب خلیفہ سے گزارش کی آپ مجھے میرے قبیلے کا امیر بناکر بھیج دیں۔ میں ایرانیوں سے لڑوں گا اور میرے اہل قبیلہ اس علاقے
کے مخالفین کا قلع قمع کرکے رکھ دیں گے۔ خلیفہ نے ان کی گزارش کو پزیرائی بخشی اور جناب مثنی نے حملوں کا سلسلہ شروع کردیا، پھر اُنھوں نے اپنے بھائی مسعود بن
حارثہ کر طلبِ کمک کے لیے خلیفہ کے پاس بھیجا اُنھوں نے خالد بن ولید کو مدد کے لیے روانہ کیا۔ خود جنابِ خالد کو ایرانیوں سے دو دو ہاتھ کرنے کی زبردست خواہش
تھی۔
جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف قبائل میں جانے کا پروگرام بنایا۔تو حضور قبیلۂ شیبان میں بھی تشریف لائے، تو معروق بن عمرو اور مثنی بن حارثہ سے آپ
کی ملاقات ہوئی اور آپ نے اُنھیں (اہلِ قبیلہ کو) دعوت دی۔ ہم معروق کے تذکرے میں اس قصے کو بیان کریں گے۔ تینوں نے اس کی تخریج کی ہے۔