بن عمرو بن حسل بن اجب بن حبیب بن عمر و بن شیبان بن محارب بن فہر القرشی الفہری: ان کی والدہ کا نام وعد بنت جابر حسل بن اجب تھا، جو کرز بن جابر کی ہمشیرہ
تھی۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی۔ تو بقول واقدی یہ لڑکے تھے اور لوگوں کا خیال ہے کہ انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سماع کا موقع مِلا اور
حضور کی بات اچھی طرح دماغ میں محفوظ رکھی اور کوفے میں سکونت اختیار کی۔ بعدہٗ مصر چلے گئے۔ چنانچہ ان سے اہلِ کوفہ اور نیز اہلِ مصر نے روایت کی۔ اہلِ کوفہ
میں قیس بن ابی حازم، شعبی اور ربعی بن خراش تھے اور مصریوں میں ابو عبد الرحمٰن جیلی، عبد الرحمٰن جبیر اور علی بن رباح ہیں۔
اسماعیل بن ابی خالد نے قیس سے، انہوں نے مستور دبن شداد سے جو بنو فہر کا بھائی تھا اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سُنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا۔ دُنیا کی مثال آخرت کے مقابلے میں ایسی ہے، جیسے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈال دے اور پھر انتظار کرے اور دیکھے کہ انگلی کیا لے کے آتی ہے۔
ابو منصور بن مکارم نے باسنادہ معافی بن عمران اوزاعی سے روایت کی۔ کہ ان کو حارث بن یزید نے عبد الرحمٰن بن جبیر سے انہوں نے مستورد بن شداد سے روایت کی۔ حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ کہ جو شخص ہمارا عامل ہُوا۔ اسے بیوی کا انتظام کرنا چاہیے۔ اور جس کے پاس نوکر نہ ہو اور مکان ہو، اسے چاہیے کہ ان دو
ضررتوں کی فراہمی کا بندو بست کرے۔ تینوں نے اس کا ذکر کیا ہے۔