بن اسود بن حارثہ بن نضلہ بن عوف بن عبیدہ بن عویج بن عدی بن کعب قرشی عدوی: ان کا نام عاصی تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدل کر مطیع بنادیا۔ حضور صلی
اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ تمہارا عمزاد عاصی، عاصی نہیں بلکہ مطیع ہے۔ ان کی ماں کا نام عجماء بنت عامر بن فضل بن کلیب
بن حبشیہ بن سلول خزاعیہ تھا۔ ان سے ان کے بیٹے عبد الملک نے روایت کی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے، لوگوں کو حکم دیا کہ بیٹھ جاؤ۔
عین اسی وقت عاصی مسجد میں داخل ہوئے اور بیٹھ جاؤ کی آواز سن لی۔ وہ وہیں بیٹھ گئے۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اُترے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے عاصی سے فرمایا۔ مَیں نے تمہیں نماز میں نہیں دیکھا۔ عرض کیا، یا رسول اللہ! مَیں مسجد میں داخل ہُوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بیٹھ جاؤ سُنا اور مَیں
بیٹھ گیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز مجھ تک نہ پہنچ سکی۔ فرمایا تم عاصی نہیں، بلکہ مطیع ہے۔ اس دن سے ان کا نام مطیع پڑگیا۔ ابتدا میں یہ مولفتہ
القلوب میں سے تھے۔ بعد میں انہوں نے اسلام کی اچھی خدمت کی۔ چونکہ قریش کے بڑے بڑے سردار قبولِ اسلام میں دل چسپی نہ رکھتے تھے۔ اس لیے باقی لوگ اسلام قبول
کرتے رہے۔
ابو یاسر بن ابی حبہ نے باسنادہ عبد اللہ بن احمد سے، انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے یعقوب سے اُنہوں نے میرے والد سے انہوں نے ابن اسحاق سے۔ اُنہوں نے شعبہ بن
حجاج سے، انہوں نے عبد اللہ بن ابی السفر سے انہوں نے عامر الشعبی سے انہوں نے عبد اللہ بن مطیع بن اسود سے (جن کا تعلق بنو عدی بن کعب سے ہے) انہوں نے اپنے
والد مطیع سے سنا، کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس دن کے بعد مکے میں کبھی جنگ نہ ہوگی اور آج کے بعد کبھی کوئی قریشی قتل نہیں ہوگا۔
عدوی کا کہنا ہے کہ وہ ان ستّر آدمیوں میں شامل تھے۔ جنہوں نے بنو عدی سے ہجرت کی تھی۔ انہوں نے مکے میں وفات پائی اور ایک روایت کے رو سے مدینے میں حضرت عثمان
کے عہد خلافت میں فوت ہوئے۔ اور ان کے لڑکے عبد اللہ بن مطیع ایام حرہ میں مدینے کے سربراہ تھے، جنہیں اہلِ مدینہ نے مقرر کیا تھا۔ اور ایک روایت کی رو سے یہ
قریش کے امیر تھے۔ مطیع کے دوسرے بیٹے کا نام سلیمان تھا۔ جو جنگ جمل میں قتل ہوئے تھے۔ تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔