ان کا شمار اہل بصرہ میں ہوتا ہے۔ ابن مندہ اور ابو نعیم نے ان کی نسبت اسی طرح بیان کیا ہے۔ ابو عمر نے مزیدۃ العبدی لکھا اور عصری کا نام نہیں لیا۔ ابن الکلبی
نے مزیدہ بن مالک بن ہمام بن معاویہ بن شبانہ بن عامر بن خطمہ بن محارب بن عمر و بن ودیعہ بن لکیز بن افصی بن عبد القیس لکھا ہے، لیکن عصری کی نسبت کا ذکر نہیں
کیا۔ مگر ابن مندہ اور ابو نعیم نے انہیں عصری لکھا ہے اور کہا ہے کہ وہ ہود بن عبد اللہ بن سعد بن مزیدہ کے دادا تھے۔
ہود بن عبد اللہ العصری نے اپنے دادا مزیدہ سے روایت کی کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کے ہاتھوں کو بوسا دیا۔
یحییٰ بن محمود نے اذناً بہ اسنادِ خود ابو بکر احمد بن عمرو سے روایت کی۔ کہ انہوں نے محمد بن صدران سے انہوں نے طالب بن حجیر العبدی سے۔ انہوں نے ہود العصری
سے انہوں نے اپنے دادا سے سنا کہ ایک دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے گفتگو فرما رہے تھے ارشاد فرمایا کہ ابھی اس طرف سے کچھ سوار تمہارے آمنے سامنے
آنے کو ہیں۔ جنہیں تم اہلِ مشرق کے بہترین افراد کہہ سکتے ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اٹھے اور اس طرف کو چل دیے۔ ان کی ملاقات تیرہ شتر سواروں سے ہوئی، جنہیں
انہوں نے خوش آمدید کہا اور پوچھا کہ کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہو۔ کہا بنو عبد القیس سے۔ کیا تم اس علاقے میں تلواروں کی تجارت کےلیے آئے ہو۔ کہا نہیں معلوم ہوتا
ہے، تم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کو آئے ہو۔ پس وہ انہیں ساتھ لیے حضور کی طرف لے چلے۔ وہاں پہنچے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، کہ یہ ہیں وہ
صاحب جنہیں تم ملنے آئے ہو۔
یہ سُنتے ہی انہوں نے اونٹوں سے چھلانگیں لگائیں کچھ تیز چلے،ک کچھ بھاگے اور کچھ آہستہ آہستہ چل کر خدمتِ اقدس میں پہنچے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ
تھامے، چومے اور پھر قریب ہوکر بیٹھ گئے۔ اشج جو سب سے چھوٹا تھا وہ پیچھے رہ گیا۔ اُس نے اپنا اونٹ بٹھایا، اسے رسّی سے باندھا، ساتھیوں کے سامان کو اکٹھا کیا
اور پھر متانت سے چلتا ہُوا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کو بوسہ دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تم میں
دو خصلتیں ایسی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند ہیں۔ اس نے دریافت کیا: یا رسول اللہ وہ کون کون سی ہیں: فرمایا، وقار اور احساسِ فرض اس نے پوچھا: یا رسول
اللہ! یہ اوصاف جبلی ہیں یا کسبی۔ حضور نے فرمایا۔ جبلی، اس پر اس نے کہا، ہر تعریف کا سزاوار وہ خدا ہے جن نے مجھے ایسی جبلت عطا فرمائی، جو اسے اور اس کے رسول
کو پسند ہے۔
اسماعیل بن علی نے باسنادہ ابو عیسی ترمذی سے۔ انہوں نے محمد بن صدران ابو جعفر البصری سے انہوں نے طالب بن حجیر سے۔ انہوں نے ہود بن عبد اللہ سے، اُنہوں نے
اپنے دادا مزیدہ سے روایت کی۔ کہ وہ فتح مکّہ کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار پر سونے اور چاندی
کے حلقے وغیرہ تھے۔ تینوں نے اس کا ذکر کیا ہے۔
اس روایت میں سب نے مزیدہ کو مرد قرار دیا ہے، لیکن ابو نعیم نے دوبارہ ان کا ذکر صحابیات میں عورت سمجھ کر کیا ہے۔ حالانکہ وہ مرد ہیں۔