سیّدنا مقداد رضی اللہ عنہ
سیّدنا مقداد رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن عمرو بن ثعلبہ بن مالک بن ربیعہ بن ثمامہ بن مطرود بن عمرو بن سعد بن وہیر بن لوئی بن ثعلبہ بن مالک بن شرید بن ابی ہون بن قاس بن دریم بن قین بن اہون بن بہراء بن عمرو بن حاف بن قضاعہ ہراوی: مقداد بن اسود کے نام سے مشہور تھے اور یہ اسود وہی ہیں۔ جن کی طرف اسود بن عبد یغوث زہری منسوب تھے۔ اس انتساب کی وجہ یہ تھی کہ مقداد نے اسود کو اپنا حلیف بنایا، جس پر انہوں نے مقداد کو اپنا متبنی بنالیا۔ انہیں مقداد کندی بھی کہتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اُنہوں نے قبیلۂ بہراء کے ایک آدمی کو قتل کردیا اور وہ بھاگ کر قبیلۂ کندہ میں چلے گئے چنانچہ وہ مقداد کندی کہلائے۔ کچھ دنوں کے بعد انہوں نے قبیلۂ کندہ کے ایک آدمی کو قتل کردیا۔ اور بھاگ کر مکے چلے گئے۔ وہاں انہوں نے اسود بن عبد یغوث کو اپنا حلیف بنالیا۔ احمد بن صالح المصری کہتے ہیں کہ وہ حضرمی تھے اور ان کے والد نے کندہ کو حلیف بنالیا تھا۔ اور مقداد نے اسود بن عبد یغوث کو حلیف بنایا اور ان سے منسوب ہُوئے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ وہ (مقداد) بہراوی تھے، اور ان کی کنیت ابو معبد تھی۔ ایک روایت کے مطابق ان کی کنیت ابو الاسود تھی۔
جناب مقداد سابقوں اولوں میں قدیم الاسلام تھے۔ انہوں نے حبشہ کو ہجرت کی۔ کچھ عرصے کے بعد وہاں سے واپس آگئے۔ جب مدینے کو ہجرت شروع ہوئی، تو مقداد ہجرت نہ کرسکے۔ کچھ عرصے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینے چلے گئے۔ بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبیدہ بن حارث کو ایک دستہ فوج کے ساتھ کسی مہم پر روانہ کیا۔ اس دوران میں ان کی ملاقات مشرکین کے ایک گروہ سے ہوگئی، جس میں ابو جہل اور عکرمہ بھی موجود تھے۔ مقداد اور عتبہ بن غزوان بھی اس جماعت کے ساتھ تھے تاکہ جہاں بھی اسلام دستۂ فوج سے ملاقات ہوگئی۔ یہ ان سے مِل جائیں گے۔ چنانچہ دونوں گروہ آمنے سامنے آگئے۔ مقداد اور عتبہ اسلامی دستے سے مل گئے اور دونوں دستوں میں کوئی جھگڑا نہ ہوا۔
ابو جعفر بن سمین نے باسنادہ یونس بن بکیر سے، انہوں نے ابن اسحاق سے بہ سلسلۂ مہاجرین حبشہ از بنو زہرہ و بہراء، مقداد بن عمرو کا ذکر کیا ہے اور ان کا نسب بہ طریق ذیل تھا۔ مقداد بن اسود بن عبد یغوث بن وہب بن عبد مناف بن زہرہ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عبد یغوث سے سلسلۂ حلف قائم کرنے کے بعد ان کو متبنی بنالیا گیا تھا۔ مقداد غزوۂ بدر میں شریک تھے۔ اور یہاں انہوں نے نہایت اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔
اور اسی اسناد سے ابن اسحاق سے مروی ہے کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بدر کو روانہ ہوئے، تو اطلّاع موصول ہوئی کہ قریش اپنے قافلے کو بچانے کے لیے مکے سے روانہ ہولیے ہیں، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے مشورہ کیا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے تقریر کی، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اور دونوں نے اچھے خیالات کا اظہار کیا۔ ان کے بعد مقداد بن عمرو اٹھے اور کہنے لگے، یا رسول اللہ! خدا کی طرف سے جو حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا ہے بلا تامل اس پر عمل فرمایے۔ بخدا ہماری طرف سے ویسا جواب نہیں دیا جائے گا، جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے دیا تھا۔ جب انہیں عمالقہ کے خلاف جہاد کا حکم دیا گیا تھا۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی بنا کر بھیجا ہے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں برک الغماد کو لے چلیں گے، تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیں گے اور آپ کی حفاظت کریں گے، تا آنکہ آپ صلی اللہ علیہ فائز المرام ہوجائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سُنا تو ان کی تحسین فرمائی اور دعائے خیر کی۔
کہا جاتا ہے کہ غزوۂ بدر میں سوائے مقداد بن اسود کے اور کسی کے پاس گھوڑا نہیں تھا۔ واللہ اعلم۔ اور مقداد وہ پہلے آدمی ہیں۔ جنہوں نے مکے ہی میں اپنا اسلام ظاہر کردیا تھا اور مشرکین سے بالکل مرعوب نہیں ہوئے تھے۔ کہتے ہیں کُل ایسے سات آدمی تھے، جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام غزوات میں شریک رہے یہ کئی خوبیوں کے مالک تھے۔
کئی راویوں نے ابو عیسی ترمذی سے، انہوں نے اسماعیل بن موسیٰ فزاری سے، انہوں نے شریک بن ابی ربیعہ سے انہوں نے ابی بریدہ سے، انہوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے خدا نے حکم دیا کہ مَیں چار آدمیوں سے محبت کروں، کیونکہ خدا بھی ان سے محبت کرتا ہے۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ان کے نام لیجیے۔ فرمایا۔ علی، ابوذر، مقداد اور سلمان فارسی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ہر نبی کے سات نجیب وزیر اور رفیق ہوتے ہیں۔ مجھے چودہ ایسے نجیب رفیق دیے گئے ہیں: حمزہ، جعفر، ابوبکر، عمر، علی، حسن، حسین، ابنِ مسعود، سلمان، عمار، حذیفہ، ابوذر، مقداد اور بلال۔ اور مقداد فتح مصر میں شامل تھے۔ انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی۔ اور ان سے صحابہ میں سے علی، ابن عباس، مستورد بن شداد، طارق بن شہاب وغیرہ نے تابعین میں سے عبد الرحمن بن ابی لیلی امیمون بن ابی شبیب، عبید اللہ بن عدی بن خیار اور جبیرین نفیر وغیرہ نے روایت کی۔
ابراہیم بن محمد فقیہہ وغیرہ نے باسناد ہم تا محمد بن عیسیٰ سے انہوں نے سوید بن نصر سے۔ انہوں نے ابن مبارک سےانہوں نے عبد الرحمٰن بن یزید بن جابر سے، انہوں نے سلیم بن عامر سے انہوں نے مقداد سے روایت کی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جب قیامت کا دن ہوگا۔ تو سورج کو بندوں کے اتنا قریب لایا جائے گا کہ وہ ایک یا دو میل کے فاصلے پر آکر رُک جائے گا۔ سلیم کہتے ہیں۔ مَیں نہیں سمجھ سکا کہ میل کے لفظ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا مقصد تھا۔ میل سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی غرض میل دو میل کا فاصلہ تھی یا میل سے مراد آنکھ میں سُرمہ ڈالنے کی سلائی تھی۔ سورج کی گرمی انہیں پگھلادے گی اور وہ اپنے اعمال کے مطابق پسینے میں غرق ہوں گے۔ کوئی تخنوں تک، کوئی گھٹنوں تک، کوئی کمر تک، کوئی سینے تک، کوئی گردن تک، اور کوئی مُنہ تک بطور لگام گے۔ مَیں نے دیکھا کہ رسولِ کریم نے ہاتھ سے اشارہ کیا اور ہاتھ کو مُنہ میں لگام کی طرح ڈالا۔
عبد اللہ بن احمد بن محمد بن عبد القاہر خطیب نے ابو محمد جعفر بن احمد السراج سے انہوں نے علی بن حسن تنوخی سے انہوں نے ابو عمر بن حیویہ خزاز سے انہوں نے ابو الحسین العباس بن مغیرہ سے انہوں نے ابو نصر محمد بن موسیٰ طوسی سے، انہوں نے محمد بن سعید سے انہوں نے واقدی سے، انہوں نے موسیٰ بن یعقوب سے، انہوں نے اپنی چچی سے انہوں نے اپنی ماں سے روایت کی کہ جناب مقداد کا پیٹ پھٹ گیا تھا اور چربی باہر نکل آئی۔ ان کی وفات مدینہ میں حضرت عثمان کے دورِ خلافت میں ۷۰ برس کی عمر میں ہوئی تھی۔ جرف میں ان کی زمین تھی جہاں سے انہیں اٹھا کر مدینے لایا گیا تھا اور زبیر بن عوام کو اپنے بعد وصی بنایا تھا۔ منصور نے ابراہیم سے انہوں نے ہمام بن حارث سے روایت کی کہ مقداد لحیم شحیم آدمی تھے، تینوں نے اس کا ذکر کیا ہے۔