بن حجش الاسدی: ہم نے ان کا نسب ان کے والد کے ترجمہ میں بیان کیا ہے۔ یہ حرب بن اُمّیہ کے حلیف تھے اور ان کی والدہ فاطمہ بنت ابی خنیس تھی اور کنیّت ابو عبد
اللہ تھی انھوں نے اپنے والد اور دو چچاؤں کے ساتھ حبشہ کو ہجرت کی تھی۔ وہاں سے واپس پر اُنھوں نے والد کے ساتھ ہجرت کی اُنھیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی
صحبت میسّر آئی نیز اُنھوں نے حضور سے روایت بھی کی ہم نے اس کتاب میں ان کے چچا اور پھوپھیوں کا ذکر کیا ہے۔
جب عبد اللہ بن حجش احد کی طرف روانہ ہوئے، تو اُنھوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بیٹے محمد کا وصی مقرر کیا اور بیٹے کے لیے خیبر میں کُچھ مال
خریدا، اور مدینہ کے چوک دقیق میں اس کے لیے ایک مکان بھی خریدا۔
واقدی لکھتا ہے کہ محمد کی پیدائش ہجرت سے پانچ برس پہلے ہوئی تھی اور محمد بن طلحہ بن عبد اللہ! محمد بن عبد اللہ کی پھوپھی کا بیٹا تھا کیونکہ محمد بن طلحہ کی
والدہ حجش کی بیٹی تھی۔
ہمیں ابنِ ابی حبہ نے باسنادہ عبد اللہ بن احمد سے یہ بات بتائی۔ کہ مجھے میرے باپ نے اور اسے محمد بن بشیر نے اسے محمد بن عمرو نے اور اسے ابو کشمیر نے، اسے
محمد بن عبد اللہ بن حجش نے بتایا کہ ایک شخص نے حضور کی خدمت میں حاضر ہوکر دریافت کیا، یا رسول اللہ اگر مَیں اللہ کی راہ میں مارا جاؤں تو مجھے کیا ملے گا،
فرمایا جنّت جب وہ چلے گئے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ہاں، جبریل نے ابھی میرے کان میں کہا ہے کہ قرض کا حساب کتاب دینا ہوگا۔