بن عثان: یہ محمد بن ابو بکر الصدیق ہیں۔ ان کی والدہ کا نام اسماء بنتِ عمیس تھا۔ ہم ان کا نسب ان کے والد کے ترجمے میں لکھ آئے تھے۔ ان کی ولادت حجۃ الوداع کے
موقعہ پر ذو الحلیفہ میں ذو العقدہ کی ۲۵؍ تاریخ کو ہوئی۔ ان کی والدہ رفعِ حاجت کے لیے نکلی تھیں کہ وضع حمل ہوگیا۔ حضرت ابو بکر نے رسولِ کریم سے اس باب میں
شرعی حکم دریافت کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہانےکے بعد تہلیل و تسبیح کی اجازت ہے، لیکن جب تک وہ پاک نہ ہو، کعبے کا طواف نہ کرے۔
ابو الحرم مکی بن ریان بن شبۃ الخوی نے باسنادہ یحییٰ بن یحییٰ سے اس نے مالک سے اس نے عبد الرحمان بن قاسم سے، اس نے اپنے باپ سے اس نے اسماء بنتِ سے روایت کی
کہ میرے بطن سے محمد بن ابو بکر صحرا میں پیدا ہوئے۔ حضرت ابو بکر سے حضور اکرم نے فرمایا کہ غسل کے بعد تہلیل و تسبیح پڑھ لیا کرے۔ حضرت عائشہ نے ان کی کنیت
ابو القاسم رکھی تھی اور جب بعد میں ان کو خدا نے بیٹا دیا، تو اس کا نام قاسم رکھا گیا۔ حضرت عائشہ انھیں صحابہ کے زمانے میں اسی کُنیت سے پکارتی تھیں اور کوئی
مضائقہ نہیں تھا۔
حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد حضرت علی نے اسماء سے نکاح کرلیا اور جعفرین ابی طالب کی شہادت کے بعد ابو بکر نے ان سے شادی کرلی تھی۔ محمد رضی اللہ عنہ حضرت علی
کے ربیب ہوگئے اور جنگ جمل میں ان کے ساتھ تھے۔ صفین کی جنگ میں بھی حضرت علی کے لشکر میں تھے بعد میں وہ مصر کے والی مقرّر ہوئے اور وہیں قتل ہوگئے یہ ان لوگوں
میں سے تھے، جنھوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کیا تھا۔ جب اُنھیں قتل کرنے کے لیے ان کے محل میں داخل ہوئے تو خلیفہ نے کہا اگر تیرا باپ تجھے اس حالت
میں دیکھتا، تو اسے تیری اس حرکت پر رنج ہوتا۔ چنانچہ وہ علیحدہ ہوگئے اور محل سے باہر نکل گئے بعد میں جب وہ مصر کے والی تھے اور حضرت علی کی شہادت کے بعد عمرو
بن عاص نے مصر پر حملہ کیا تو محمد رضی اللہ عنہ کو شکست ہوگئی اور بھاگ کر ایک غار میں پناہ لی پکڑے گئے اور قتل کر دیے گئے اور ان کی میّت کو ایک مردہ گدھے کے
پیٹ میں ڈال کر جلا دیا گیا۔ ایک روایت کے مطابق انہیں معاویہ بن خدیج نے قتل کیا۔ ایک روایت میں ہے کہ عمرو بن عاص نے انہیں بھوکا رکھ کر ہلاک کیا جب حضرت
عائشہ صدیقہ کو بھائی کی وفات کا علم ہوا۔ تو انھیں سخت دُکھ ہوا! فرمایا، مَیں مرحوم کو اپنا بھائی اور بیٹا سمجھتی تھی اور چونکہ انھیں آگ میں جلایا گیا تھا
اس لیے حضرت عائشہ نے اس واقعہ کے بعد کبھی بھی بھُنا ہوا گوشت نہیں کھایا چونکہ مرحوم صاحب اور عبادت گزار آدمی تھے اس لیے حضرت علی ان کو اچھا جانتے تھے او وہ
یحییٰ بن علی اور عبد اللہ بن جعفر کے اخیافی بھائی تھے۔ تینوں نے اس کی تخریج کی ہے۔