بن حریش بن جحجبا بن عوف بن کلفہ بن عوف بن عمرو بن اوس الانصاری الاوسی: انہیں صحابہ میں شمار کیا گیا ہے عبدان کا قول ہے، مجھے معلوم ہُوا ہے کہ سب سے پہلے اس
شخص کا نام محمد رکھا گیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ یہ صاحب ان لوگوں میں سے نہیں۔ جن کا محمد بن عدی کی حدیث میں ذکر ہے کہ جب لوگوں کے کانوں میں یہ بات پڑی کہ
عنقریب جس نبی کا ظہور متوقع ہے ان کا نام نامی محمد ہوگا، تو لوگوں نے اپنے بچوں کا نام محمد رکھنا شروع کردیا۔ ان میں محمد بن سفیان بن مجاشع، محمد بن براء،
محمد بن اُحیحہ، محمد بن مالک، محمد بن خزاعی بن علقمہ، محمد بن عدی بن ربیعہ بن جشم بن سعد شامل ہیں۔ اس کی تخریج ابو نعیم اور ابو موسیٰ نے کی ہے۔
لیکن مجھے اس پر اعتراض ہے کہ یہ سب لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہ حیثیت زمانہ سابق ہیں۔ انہیں اس نام کا کیسے علم ہوگیا تھا۔ مثلاً احیحہ بن جلاح نے
عبد المطلب کی ماں سے نکاح کیا تھا اور اس خاتون کا نام سلمیٰ بنتِ عمرو تھا۔ پس جو شخص والدۂ عبد المطلب کا شوہر ہو اور پھر عبد المطلب نے لمبی عمر پائی تھی۔
اس کا بیٹا حضور اکرم کا معاصر کیسے ہوسکتا ہے۔ مزید براں ابن مندہ، ابو نعیم ابو عمر نے بیان کیا ہے کہ منذر بن محمد بن عقبہ بن احیحہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کے اصحاب میں شامل تھے اور غزوۂ بدر میں شریک تھے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس نے منذر اور عقبہ کا ذکر نہ کرکے غلطی کی ہے۔