بن خالد بن عدی بن مجدعہ بن حارثہ بن حارث بن خزرج بن عمرو بن مالک بن اوس الانصاری اوسی حارثی: یہ بنو عبد الاشہل کے حلیف تھے، اور کنیت عبد الرحمٰن تھی ایک
روایت میں ابو عبد اللہ مذکور ہے۔ سوائے حجوک کے تمام غزوات میں شریک ہوئے ان کی وفات مدینہ میں ہوئی۔ وہ مدینہ کو چھوڑ کر کہیں نہ جاسکے۔
عبید اللہ بن احمد نے باسنادہ یونس بن بکیر سے انھوں نے ابن اسحاق سے انصار کے قبیلے بنو عبد الا شہل سے ان لوگوں کے ناموں کے سلسلے میں جو بدر میں موجود تھے
بتایا کہ ان کے حلیفوں میں محمد بن مسلمہ بھی تھے۔ جن کا تعلق بنو حارثہ سے تھا۔ یہ محمد بن مسلمہ ان لوگوں میں شامل تھے، جنھوں نے کعب بن، اشرف یہودی کو قتل
کیا تھا۔ بعض غزوات کے موقعہ پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں مدینے کی امارت تفویض فرمائی اک روایت کے رو سے اس غزوے کا نام قر قرۃ الکدر، اور ایک
دوسری روایت کے مطابق غزوہ تبوک تھا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں اپنے دورِ خلافت میں جہینہ قبیلے سے وصولی زکات کے لیے مقرّر کیا تھا نیز وہ اس دور میں تام عمالِ حکومت کے حاکم اعلیٰ تھے۔ جب
کبھی کسی عامل کے خلاف دربارِ خلافت میں شکایات موصول ہوتیں خلیفہ تحقیق احوال کے لیے انھیں روانہ کرتے تھے۔ نیز چونکہ خلیفہ کو ان اعتماد تھا اس لیے سرکاری
محاصل کی وصولی کے لیے بھی انہی کو بھیجا جاتا۔
جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کے بعد اُمتِ محمد بحران کا شکار ہوگئی تو انھوں نے گوشہ نشینی اختیار کرلی اور لکڑی کی تلوار سنبھالی لی کہتے ہیں کہ مجھے
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی حکم دیا تھا۔
ہمیں عبد اللہ بن احمد طوسی، انہیں جعفر بن احمد قادری نے انھیں عبید اللہ ابن شاہین نے، انھیں عبد اللہ بن ابراہیم بن ماشی نے، انھیں حسین بن علویہ قطان نے،
انھیں سعید بن عیسی نے، انھیں طاہر بن حماد نے، انھیں سفیان ثوری نے انھیں سلیمان احوال نے، انھیں طاؤس نے بتایا کہ جناب محمد بن مسلمہ نے بتایا کہ رسولِ کریم
نے مجھے ایک تلوار دے کر فرمایا کہ اس سے مشرکین کے خلاف جنگ کرو اور جب مسلمانوں میں باہم اختلاف پیدا ہوجائے تو اسے پتھر مار کر توڑ دو اور گھر کی چٹائی بن
جاؤ۔ چنانچہ وہ اس دور کے جھگڑوں سے علیحدہ ہوگئے سعد بن ابی وقاص اسامہ بن زید، عبد اللہ بن عمر وغیرہ کئی لوگ خانہ نشین ہوگئے تھے ایک روایت میں ہے کہ مرحب
یہودی کو انہی نے قتل کیا تھا، لیکن اہل سیر اور مورخین نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مرحب کا قاتل لکھا ہے اور یہی درست ہے حذیفہ بن یمان کہتے ہیں کہ محمد بن
مسلمہ ایسے آدمی ہیں جنہیں اس بحران سے کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
راوی بیان کرتا ہے کہ ہم بمقامِ زبدہ آئے، وہاں ایک خیمے میں ہم نے محمد بن مسلمہ کو دیکھا ہم نے ان سے پوچھا انھوں نے جواب دیا کہ ہم ان کے شہروں میں سے کوئی
چیز نہیں لیتے۔ جب تک اس کی حقیقیت بالکل واضح نہ ہوجائے۔
ان کی وفات مدینہ میں ۴۶ یا ۴۷، بحری میں ہوئی کہتے ہیں کہ ان کی عمر ۷۷ برس تھی۔ ان کا رنگ سفید و سرخ قد لمبا اور سر کے بال اڑے ہوئے تھے۔ اُنھوں نے دس لڑکے
اور سات لڑکیاں اپنی یادگار چھوڑیں۔ تینوں نے اس کی تخریج کی ہے۔