بن مجاشع بن وارم التمیمی وارمی: ان کا ذکر محمد بن عدی بن ربیعہ اور محمد بن احیحہ بن جلاح وغیرہ کی حدیث میں مذکور ہے جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں ابو نعیم
کہتا ہے کہ انہی ناموں کے بارے میں مجھ سے احمد بن اسحاق نے کہا، کہ ہم سے محمد بن احمد بن سلیمان ہروی نے کتاب الدلائل میں بیان کیا کہ یہ لوگ جن کے نام ان کے
بزرگوں نے حضور اکرم کی پیدائش سے پہلے محمّد رکھا تھا۔ انھیں راہب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بارے میں اطلّاع دی تھی وہ لوگ حسبِ ذیل ہیں محمّد بن
عدی بن ربیعہ، محمّد بن احیحہ، محمّد بن حمران بن مالک الجعفی اور محمّد بن خزاعی بن علقمہ اس کی تخریج ابو نعیم اور ابو موسیٰ نے کی ہے۔
مَیں محمّد بن احیحہ کے ترجمے میں، اس سلسلے میں کافی لکھ چُکا ہوں۔ مزید وضاحت کے لیے کہتا ہوں کہ محمد بن سفیان کی اولاد میں سے جو لوگ حضور اکرم کے معاصر
تھے۔ اس(محمّد بن سفیان) کے بعد کئی نسلیں شمار ہوتی ہیں۔ مثلاً اقرع بن حابس اپنے قبیلے کا اسلام لانے سے پہلے سردار اور مقدّم تھا بعد میں مسلمان ہوگیا اس کا
سلسلۂ نسب یوں ہے: اقرع بن حابس بن عقال بن محمّد بن سفیان اگر محمّد بن سفیان کو صحابی مانا جائے تو ضرور ہے کہ اس کے بعد آنے والے لاگ اقرع تک عقال اور حابس
بھی صحابی شمار ہوں گے۔ اسی غالب ابو الفرزوق کو(جس کا سلسلۂ نسب غالب بن صعصعہ بن ناجیہ بن عقال بن محمّد ہے اور جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معاصر تھا)
بھی صحابی ماننا پڑے گا نیز اسی طرح کے اور کئی آدمیوں کو اس لیے ہم محمّد بن سفیان کو اور اس کے ہم عصران لوگوں کو جن کا نام محمد تھا صحابی نہیں کہہ سکتے ابو
نعیم اور ابو موسیٰ نے اس کی تخریج کی ہے۔
ابو نعیم کہتا ہے کہ بعض وہم پرسوتوں(غلط غوارویوں) نے محمد بن سفیان کو سعید بن زیادہ بن قائد بن زیاد بن ابی ہند الدارمی کی اس حدیث میں ذکر کیا ہے جس میں
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بیت جیرین، بیت عینون اور بیت ابراہیم سے جاگیریں عطا کیں اور اس فرمان پر خلفائے راشدین اور امیر معاویہ کے دستخط ہیں
بعض راویوں نے معاویہ بن سفیان کو غلطی سے محمّد بن سفیان سمجھ لیا اور اسے صحابہ میں شمار کردیا حالانکہ اس نام کا کوئی صحابی نہیں تھا۔