سیدنا محمد بن طلحہ رضی اللہ عنہ
سیدنا محمد بن طلحہ رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن عبید اللہ القرشی التمیمی: ہم ان کا نسب ان کے باپ کے ترجمے میں بیان کر آئے ہیں۔ ان کے والد انھیں اٹھا کر حضور اکرم کی خدمت میں لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور محمد نام رکھا اور اپنی کنیت بھی عطا فرمائی بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان کی کنیت ابو سلیمان تھی ان کی والدہ حمۂ بنت حجش تھیں جو ام المومنین زینب کی ہمشیرہ تھیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضور اکرم نے ان کی کنیت ابو سلیمان رکھی تو جنابِ طلحہ نے گزارش کی۔ یا رسول اللہ! ابو القاسم کی اجازت فرمادیجیے، ارشاد ہوا نہیں مَیں نام اور کنیت جمع نہیں کرنا چاہتا یہ ابو سلیمان ہے لیکن پہلی روایت درست ہے۔
ابو راشد بن حفص الزہری کا بیان ہے کہ مَیں صحابہ کی اولاد میں سے چار ایسے آدمیوں کو جانتا ہوں جن کے نام محمد اور کنیت ابو القاسم تھی۔ محمد بن علی، محمد بن ابی بکر، محمد بن طلحہ اور محمد بن سعد بن ابی وقاص محمد بن طلحہ کا لقب بوجہ کثرتِ عبادت سجاد پڑگیا تھا۔ یہ صاحب اپنے والد سمیت جنگ جمل میں ۳۶ھ میں مارے گئے تھے ہر چندان کا رجحان حضرت علی کی طرف تھا لیکن باپ کی پیروی میں حضرت عائشہ کے لشکر میں شامل ہوگئے تھے جب حضرت علی نے انھیں مرے ہوئے دیکھا تو کہا، یہ سجاد ہے، جو اپنی پارسائی کے باوجود، باپ کی وجہ سے مارا گیا۔ وہ جناب طلحہ کی اولاد میں سر برآورہ تھے۔ حضرت علی نے اپنے لشکر کو تاکید فرمادی تھی کہ انھیں قتل نہ کیا جائے۔ جناب محمد حضرت علی کے خلاف بالکل لڑنا نہیں چاہتے تھے، لیکن باپ کے حکم سے مجبوراً شریکِ قتال ہوئے۔ ذرّہ اتار کر پھینک دی اور اس کے اوپر کھڑے ہوگئے۔ چنانچہ جب کوئی آدمی ان پر حملہ آور ہوتا اسے قرآن دیتے تاآنکہ ایک آدمی نے حملہ کرکے انھیں قتل کردیا پھر اس نے مندرجہ ذیل اشعار پڑھے۔
۱۔ وہ درویش خدا پرست جو اللہ کے احکام پر سختی سے ڈٹا رہا۔ کسی کو دکھ نہیں دیتا تھا اور جہاں تک آنکھوں کی بصارت کام کرتی تھی، وہ مسلمان تھا۔
۲۔ میں نے نیزے سے اس کی زرہ کو پھاڑ دیا۔ چنانچہ وہ منہ کے بل زمین پر گر پڑا۔
۳۔ اس کے سوا، اس کا اور کوئی قصور نہ تھا کہ وہ حضرت علی کا تابع اور پیر و کار نہ تھا اور جو شخص حق کا ساتھ نہ دے۔ اس سے زیادتی ہو ہی جاتی ہے۔
۴۔ وہ مجھے حامیم کی قسم دیتا تھا۔ اور میرا نیزہ تنا ہوا تھا۔ تُونے میدانِ جنگ میں آنے سے پہلے کیوں حامیم نہیں پڑھی تھی۔
کہتے ہیں کہ انھیں کعب بن مدلج نے جو بنو اسد بن خزیمہ سے متعلق تھا، قتل کیا تھا، ایک روایت ہے کہ انھیں شداد بن معاویہ عبسی نے قتل کیا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ ان کا قاتل اشتر الخعی تھا۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ قاتل کا نام عصام بن مقشعر النصری تھا۔ ان کے علاوہ بعض آدمیوں کا نام بھی لیا گیا ہے۔
محمد بن حاطب سے مروی ہے کہ جب ہم جمل کے دن لڑائی سے فارغ ہوئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ امام حسن عمار بن یاسر، صعصعہ بن صوحان، اشتر اور محمد بن ابو بکر مقتولوں میں گھوم پھر رہے تھے۔ حضرت حسن نے ایک مقتول کو مُنہ کے بل گِرا دیکھا۔ حضرت حسن نے اسے سیدھا کیا تو انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔ بخدا یہ قریش کی اولاد تھا حضرت علی نے دریافت کیا، بیٹا! مقتول کون ہے۔ انھوں نے کہا محمد بن طلحہ حضرت علی نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔ بخدا میں نے اسے ایک جوان ِ صالح پایا۔
پھر جناب علی افسردہ اور پریشان خاطر ہوگئے۔ حضرت حسن نے کہا، ابّا جان! مَیں نے آپ کو ادھر آنے سے بار ہا منع کیا تھا۔ لیکن آپ فلاں فلاں آدمی کی باتوں میں آگئے۔ بیٹا! اگر اس ناشدنی واقعہ نے ہونا تھا تو مَیں کیوں نا آجس سے بیس برس پہلے مرگیا۔
ابو یاسر بن ابی ہبہ نے باسنادہ عبد اللہ بن احمد سے بیان کیا ہے۔ اس نے اپنے باپ سے اس عفان نے اس سے ابو عوانہ نے اس سے ہلال الوزان نے، اس سے عبد الرحمٰن بن ابی لیلی نے بیان کیا، کہ حضرت عمر نے ابن عبد الحمید سے ابو اعوانہ نے اس سے ہلال الوازن نے اس سے عبد الرحمٰن بن ابی لیلی نے بیان کیا، کہ حضرت عمر نے ابن عبد الحمید سے ابو عوانہ نے اس سے ہلال الوازن نے اس سے عبد الرحمٰن بن ابی لیلی نے بیان کیا، کہ حضرت عمر نے ابن عبد الحمید کو جس کا نام محمد تھا دیکھا کہ ایک شخص کا نام لے لے کر اسے بُرا بھلا کہہ رہا تھا اور بے تحاشا کوس رہا تھا۔ حضرت عمر نے اسے بلایا۔ اے فلاں! مَیں دیکھ رہا ہوں کہ تیری وجہ سے محمد کو بُرا بھلا کہا جا رہا ہے۔ بخدا جب تک تو زندہ ہے تجھے ہرگز اس نام سے مخاطب نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ اس کا نام بدل کر عبد الرحمان رکھ دیا۔ اس کے بعد جنابِ طلحہ کے خاندان کو طلب کیا۔ ان میں اس نام کے ساتھ آدمی تھے۔ محمد بن طلحہ سب سے بڑا اور ان کا لیڈر تھا۔ حضرت عمر نے ان کے نام بدلنے کا ارادہ کیا۔ اس پرجناب محمد بن طلحہ سب سے بڑا اور ان کا لیڈر تھا۔ حضرت عمر نے ان کے نام بدلنے کا ارادہ کیا۔ اس پر جاب محمد بن طلحہ نے کہا۔ امیر المومنین! مَیں خدا کا نام لے کر عرض کرتا ہوں کہ حضور نے میرا نام محمد رکھا۔
اس پر حضرت عمر نے کہا اٹھو چلیں، جس کا نام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تجویز فرمایا اس میں ہم کچھ نہیں کرسکتے تینوں نے اس کی تخریج کی ہے۔