بن عطارد: اِن کا ذکر صحابہ میں ہوا ہے، لیکن نہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ثابت ہے نہ زیارت یہ صاحب اپنے زمانے میں اہلِ کوفہ کے سردار تھے جن دنوں
یہ آذر بائجان کے حاکم تھے تو ہزار گھوڑوں پر سوار، ہزار آدمیوں نے حملہ کیا، جن میں اہلِ کوفہ بھی تھے۔ حماد بن سلمہ نے ابو عمران جونی سے اس نے محمد بن عمیر
بن عطارد سے روایت کی کہ حضور اکرم اپنے بعض اصحاب کی محفل میں تشریک فرما تھے کہ جبریل نازل ہوئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ میں انگلی چبھوئی
اور جبریل ایک درخت کی طرف چل دیے جس میں پرندوں کے گھونسلے کی طرح دو نشست گاہیں تھیں، ایک میں جبریل علیہ السلام خود بیٹھ گئے اور دیے جس میں پرندوں کے
گھونسلے کی طرح دو نشست گاہیں تھیں، ایک میں جبریل علیہ السلام خود بیٹھ گئے اور دوسرے میں حضور اکرم کو بٹھادیا۔ اس پر انھیں نور نے ڈھانپ لیا، چنانچہ جبریل
علیہ السلام بیہوش ہوکر گِر پڑے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال آیا کہ جبریل کے دل میں مجھ سے زیادہ اللہ کا ڈر ہے اس اثنأ میں مجھ پر خدا کی طرف سے القا
ہوا، ’’آیا تم بنی اور اللہ کے بندے ہو۔ یا بنی اور فرشتے اور جنّت کے والی ہو۔‘‘ جبریل علیہ السلام نے مجھے اشارے سے سمجھایا کہ آپ انکسار کا اظہار کریں چنانچہ
مَیں نے کہا کہ مَیں بنی اور بندہ ہوں۔
ابو عمران جونی کو ایک سے زیادہ صحابہ کی صحبت اور رویت کا اتفاق ہوا۔ جن میں انس رضی اللہ عنہ اور جندب رضی اللہ عنہ شامل ہیں ابنِ مندہ اور ابو نعیم نے اس کی
تخریج کی ہے۔