بن حزم الانصاری: ان کا نسب ہم ان کے والد کے ترجمے میں بیان کر آئے ہیں ان کی کنیت ابو القاسم یا ابو سلیمان تھی۔ ایک روایت میں ابو عبد الملک آیا ہے ان کی
پیدائش ہجرت کے دسویں برس بخران میں ہوئی ان کے والد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے وہاں کے عامل تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ ان کی پیدائش رسولِ اکرم کی
وفات سے دو سال پہلے ہوئی والدہ نے محمد نام اور ابو سلیمان کنیّت رکھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی حضور نے نام تو وہی رہنے دیا لیکن کنیّت بدل کر
عبد المالک کردی محمد بن عمرو امّت مسلمہ کے عالم اور فقہہ شمار ہوتے تھے۔ انھوں نے اپنے والد اور بعض صحابہ سے بھی روایت کی ہے اور خود ان سے کئی فقہائے مدینہ
نے روایت ی ہے اور جناب محمد بن عمرو ۳۳ ہجری میں یزید کے عہد میں ایامِ حرہ میں قتل کیے گئے۔
مدائنی لکھتا ہے کہ ایک شامی نے خواب میں دیکھا کہ وہ لڑائی میں محمد نامی ایک شخص کو قتل کرے گا اور داخل جہنّم ہوگا۔ جب یزید نے مدینے پر حملے کے لیے لشکر
روانہ کیا تو اس آدمی کو بھی اس سپاہ میں شامل کردیا یہ شخص بھی لشکر کے ساتھ مدینے پہنچ گیا مگر خواب کے ڈر سے لڑائی میں حصّہ نہ لیا جب لڑائی ختم ہوئی تو
مقتولین میں گھومتا پھرتا تھا کہ اس کی نگاہ محمد بن عمرو پر پڑی جو زخمی ہوچُکے تھے محمد نے شامی کو بُرا بھلا کہا اور اور اس نے طیش مین جناب محمد کو قتل
کردیا پھر اسے اپنا خواب یاد آیا چنانچہ مدینے کا ایک آدمی ساتھ لے کر پھر سے مقتولین میں گھومنے لگا۔ جب مدنی نے جناب محمد کو مقتولین میں دیکھا تو اس نے انا
للہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور کہا کہ جس نے اس شخص کو قتل کیا ہے وہ ہمیشہ جہنّم میں رہے گا شامی نے پوچھا یہ کون ہے مدنی نے جواب دیا یہ محمد بن عمرو ہیں قریب
تھا کہ شامی و فور غم سے مرجائے۔ تینوں نے اس کی تخریج کی ہے۔