بن عاص: ان کا نسب ہم ان کے والد کے ترجمے میں بیان کر آئے ہیں عددی کا قول ہے کہ انھیں رسولِ کریم کی صحبت میسّر آئی۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات
ہوئی تو یہ جوان تھے واقدی لکھتا ہے کہ محمد بن عمرو بن عاص جنگ صفین میں موجود تھے انھوں نے لڑائی میں حصّہ لیا، لیکن ان کے بھائی عبد اللہ شریک نہ ہوئے یہی
رائے زبیر کی ہے محمد بن عمرو بے اولاد مرے: زہری لکھتا ہے کہ جناب محمد نے میدان جنگ میں اپنی بہادری کے خوب خوب جوہر دکھائے اور ذیل کے اشعار کہے۔
(۱) اگر جنگِ جمل: صفین کے میدانِ جنگ میں کسی دن میرے مقام اور طریق جنگ کا مشاہدہ کرتی، ترو دہشت سے اس کے بال سفید ہوجاتے۔
(۲) جس دن اہلِ عراق ہم پر حملہ آور ہوئے۔ یوں معلوم ہوتا تھا گویا سمندر میں طوفان اٹھا ہے کہ جس کی موجیں اوپر نیچے تہ در تہ ہیں۔
(۳) اور ہم یوں ان کی طرف بڑھے، گویا ہمارے بہادروں کی صفیں کالی گھٹائیں تھیں۔ جنھیں جنوب کی ہواؤں نے ہلکا کردیا ہے۔
(۴) عراقیوں نے ہم سے کہا، ہماری رائے ہے، کہ تم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیعت کرلو ہم نے کہا ہماری رائے یہ ہے کہ تم ہم سے لڑو۔
(۵) ان کے تیر اندازوں نے ہم پر تیروں کی بوچھاڑ کردی اور ہم نے تلواریں ہاتھوں میں لیں اور اُن پر ٹوٹ پڑے۔
(۶) جب ہم نے ان سے کہا کہ بھاگ جاؤ، تو ان کی سپاہ کے دستے سامنے آگئے اور مقابلے میں ڈٹ گئے۔
(۷) نہ تو عراقیوں نے پیٹھ پھیری تاکہ بھاگ جائیں اور ہم بھی ان کی طرح مقابلہ کر رہے تھے اور تلواریں چلا رہے تھے۔
تینوں نے اس کی تخریج کی ہے۔