حضرت مولانا پیر سید احمد خالد شامی
حضرت مولانا پیر سید احمد خالد شامی (تذکرہ / سوانح)
سید حمد بن سید خالد طرالبس (شام) میں تولد ہوئے۔ والدہ محترمہ کا تعلق کرد گھرانے سے تھا اور ان کا سلسلہ نسب شاہ بربر سے جاکر ملتا ہے۔ آپ کے ماموں محترم ملک شام میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ مولانا نجم الدین صاحب بتاتے ہیں کہ مفتی اعظم شام علامہ سید محمد امین بن عابدین علیہ الرحمۃ (صاحب ردالمحتار) مولانا سید احمد خالد شامی کے نانا کے بھائی تھے۔ (اینٹر ویو الراشد صفر ۱۳۹۷ھ)
مولانا سید احمد خالد شامی عالمی مبلغ اہلسنت تھے، جہاں بھی پہنچے شریعت و طریقت کی تبلیغ کی، بے شمار نفوس ان کی صحبت سے مستفیض ہو کر مسلک حقہ پر کار بن دہو کر نیکیاں کماتے رہے۔ مولانا کو سندھ سے ایک خاص لگن تھییہاں ان کا حلقہ بھی وسیع تھا۔ خلیفہ احمد یار خان پٹھان نے ان کا تذکرہ لکھا جو کہ شہداد کوٹ (سندھ) میں مدفون ہیں۔
تعلیم و تربیت:
آپ نے تحصیل علم کے بارے میں خود فرمایا: میں نے ظاہری علوم کمسنی میں ہی حاصل کرلئے تھے اور باطنی علوم کی تعلیم اپنے والد بزرگوار حضرت سید خالد علیہ الرحمۃسے حاصل کی۔ آپ فرماتے ہیں کہ جس وقت مجھے تمام علوم حاصل ہوگئے اور میری دستار بندی کا وقت آیا تو میرے والد بزرگوار نے بڑے جلسے کا اہتمام کیا، جس میں قرب و جوار کے تمام علمائے کرام اور اکثر صاحب دل بزرگ تشریف لائے اور جب رسم دستار فضیلت مکمل ہو چکی تو تمام بزرگوں نے میرے والد محترم کو مبارکباد دی۔ تو وہ آبدیدہ ہوگئے اور پھر اس قدر روئے کہ ہچکی بندھ گئی۔ اس واقعے سے جلسہ میں شامل تمام افراد پریشان ہوئے اور اکثر احباب نے ان سے رونے کا سبب دریافت کیااور کہا کہ آج تو آپ کو خوش ہونا چاہئے کہ اتنی کمسنی میں آپ کے فرزند کو کمال حاصل ہوا۔ جس کی مچٓس اس دور میں ملنا محال ہے ۔ آپ کے والد محترم نے ایک سر آہ بھری اور فرمایا کہ آپ حضرات کا فرمانا بجا ہے کہ آج مجھے خوش ہونا چاہئے اور میں خوش ہوں۔
مگر ایک دوسری حقیقت ہے جسے آپ لوگ شاید نہیں جانتے اور مجھے مجبوراً ظاہر کرنی پڑ رہی ہے وہ یہ کہ آج سے میری نسل منقطع ہوگئی ہے اور اس فرزند کے بعد میری نسل ختم ہے کیونکہ یہ فرزند زندگی بھر شادی نہیں کرے گا مجرد رہے گا۔ خدا وند کریم اسے استقامت عطا فرمائے اور اپنے رحم وکرم سے اس کو تمام خطرات سے محفوظ رکھے۔ (آمین)
اس کے بعد اپنے بیٹے کو آغوش میں لے لیا اور بہت دیر تک خدا وند کریم کے حضور دعائیں کرتے رہے اور پھر کچھ دیر کے بعد بیٹے کو علیحدہ کرکے فرمایا : ’’مبارک ہو خداوند کریم نے تمہیں قبول فرمایا۔‘‘
بیعت:
معلوم ہوتا ہے کہ علامہ شامی علوم لدنی سے سرفراز تھے اور پیدائشی ولی تھے، آپ کی بیعت کے متعلق کتاب میں وضاحت نہیں لیکن معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے والد ماجد سے بیعت اور ان کے جانشین جسمانی و روحانی تھے۔
درس و تدریس:
ایک دن آپ نے علم کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ علم وہ چیز ہے جو انسان کو صحیح معنوں میں انسان بنا دیتا ہے اور پھر اس ضمن میں ایک واقعہ سنایا کہ جب میں ہندوستان آیا تو پہلے شہر پانی پت میں گیا۔ میرے ساتھ میرا ایک ملازم شیدی تھا۔ وہاں ہم ایک بڑی درسگاہ میں گئے دیکھا کہ صدر مددس طلباء کو پڑھا رہے ہیں میں نے سلام مسنون کیا مگر مولوی صاحب نے کوئی جواب نہ دیا اور نہ میری طرف متوجہ ہوئے ۔ میں وہیں بیٹھ گیا جہاں طلباء کی جوتیاں پڑی ہوئی تھیں۔ اس ذلت پر میرے ساتھی کو بہت غصہ آیا لیکن میں نے اسے خاموش رہنے کی ہدایت کی۔ مولوی صاحب تقریباً ایک تھنٹہ تک درس و تدریس میں مشغول رہے۔ اس دوران ایک طالب علم نے ان مولوی صاحب سے کوئی سوال سمجھنے کی کوشش کی مگر وہ سمجھا نہ سکے اسلئے بات کو ٹال دیا۔ جب وہ طالب علم چلا گیا تو مولوی صاحب میری طرف متوجہ ہوئے اور میرا تعارف کرنے کیلئے معمولی الفاظ استعمال کرتے ہوئے پوچھا کہ ’’عرب صاحب خوش ہو کیسے آئے ہو؟‘‘ میں نے جوا بدی اکہ خدا شکر ہے، آپ کے دیدار کیلئے آیا ہوں۔ مولوی صاحب نے دریافت کیا کہ کچھ پڑھے ہوئے بھی ہو ۔ میں نے اثبات میں جواب دیا، اس کے بعد مولوی صاحب نے تمام علوم کے نام لے کر پوچھتے رہے کہ فلاں فلاں علم پرھا، میں جواب دیتا رہا کہ ہاں تھوڑا تھوڑا پڑھا ہے۔ پھر مولوی صاحب نے پوچھا کہ ابھی ایک طالب علم جو ہم سے بحث کر رہا تھا آپ اسے سمجھا سکتے ہیں۔ میں نے جواب دیا فضل خدا اچھی طرح سمجھا سکتا ہوں۔ اگر آپ فرمائیں تو فلسفہ و منطق کے اصول سے یا قرآن و حدیث سے اس مسئلہ کو بخوبی حل کر سکتا ہوں۔ اتنے میں مدرسہ کے دیگر مدرسین اور طالب علم بھی جمع ہوگئے۔ میں نے اٹھ کر قرآن حکیم کی وہ آیت تلاوت کی جو اس بحث کو ختم کرنے والی تھی۔ مولوی صاحب سن کر بہت خوش ہوئے اور مجھ کو تعظیم دے کر اپنے پاس آنے کیلئے فرمایا اور خود مؤدب کھڑے ہوگئے۔ اس کے جواب میں میں نے مولوی صاحب کو لاپرواہی برتنے کے بارے میں سخت الفاظ کہے اور اٹھ کر مسجد سے باہر جانے لگا مولوی صاحب آکر میرے قدموں میں گر گئے اور معافی کے خواستگار ہوئے اور مجھے لے جا کر اپنی مسند خاص پر بٹھایا اور خود میرے سامنے دو زانوں با ادب بیٹھ رہے پھر اسی مولوی صاحب نے چھ ماہ تک مجھ سے تعلیم حاصل کی۔
سفر حرمین شریفین:
والدمحترم کی وفات حسرت آیا کے کچھ ہی عرصہ کے بعد آپ کی والدہ ماجدہ کا بھی وصال ہوگیا۔ والدین کی مفارقت کا انہیں بہت صدمہ تھا تاہم کچھ عرصہ کے بعد آپ نے زیارت حرمین شریفین کیلئے سفر حج کا ارادہ کیا اور حج کی سعادت سے مشرف ہوئے اور مدینہ منورہ میں حضور پر نور ﷺ کے روضہ اقدس پر حاضری و زیارت کی سعادت سے لطف اندوز اور روحانی بالیدگی پائی۔
تبلیغی دورہ:
علامہ شامی حج کرنے کے بعد واپس اپنے وطن طرابلس نہیں گئے بلکہ دنیا کے سفر پر چل نکلے اور عربستان، مصر، ترکی، ایران اور افغانستان سے ہوتے ہوئے ہندوستان پہنچے۔ دوران سفر ہر جگہ علماء و مشائخ طریقت سے ملتے رہے۔ ترکستان میں عبدالحمید شاہ ترک کے مہمان رہے۔ مصر میں جامعۃ الازہر (قاہرہ) کے علماء سے ملاقاتیں کیں۔ ایران میں جید علماء سے ملے ان کے نام اکثر آپ لیا کرتے تھے۔
آپ نے مسقط کے قیام کا ایک واقعہ سنایا کہ میں وہاں ایک رئیس حاکم کا مہمان تھا جو کہ ’’شیعہ مذہب‘‘ کا پیروکار تھا۔ برے بڑے مجتہد وہاں اکٹھے تھے۔ یہ لوگ سیدوں کی بہت عزت کرتے ہیں۔ مجھ سے بھی انہوں نے ملاقات کی اور علمی گفتگو رہی خدا کے فضل سے مجھے علمی لحاظ سے بھی انہوں نے بہتر پایا اور سید ہونے کی بناء پر بھی عزت کی اور یہ گمان کرنے لگے کہ شاید میں بھی شیعہ ہوں۔
آخر انہوں نے میرے مذہب کے بارے میں جستجو شروع کردی مگر میں بات ٹال دیتا اور کوئی دوسرا موضوع چھیڑ دیتا۔ ایک روز دربار میں بہت سے مجتہد جمع تھے اور میرا میزبان رئیس بھی وہاں موجود تھا۔ وہاں ایک بحث جو ایک گھنٹہ جاری رہی میں نے انہیں قائل کرلیا اور پھر کھڑے ہو کر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بیان کی اور اس کے بعد اپنا عقیدہ ظاہر کرکے صحابہ کرام رضوان للہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی تعریف و توصیف بیان کی ۔ بس پھر کیا تھا انہوں نے تلواریں میان سے نکال لیں اور مجھ پر حملہ آور ہوئے۔
لیکن اللہ تعالیٰ نے میری مدد فرمائی کہ ان کا رئیس اٹھ کر درمیان میں آگیا اور مجھ بچا لیا اور سب مجمع کو چلے جانے کا حکم دیا۔ اس کے بعد وہ رئیس مجھے اپنی قیام گاہ میں لے گیا اور کہا یا بن رسول اللہ! آپ کو خوف نہ ہوا کہ آپ نے ان لوگوں کے سامنے صحابہ کرام کی تعریف کردی۔ میں نے جوا ب میں کہا : ’’حق ظاہر کرنے میں خوف کیا آخر حق حق ہوتا ہے‘‘ وہ سن کر بہت خوش ہوا اور اس روز اس نے کسی اور سے ملاقات نہ کی بلکہ منع کردیا کہ آج کوئی ملنے نہ آئے اور اسی روز رات کو اس نے چار سوار بطور محافظ ہمراہ دے کر اور کچھ تحائف دے کر مجھے رخصت کیا اور کہا اب آپکا یہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ ان چاروں محافظوں کو تاکید کی خبردار! میرے مہمان کو کوئی تکلیف نہ پہنچے، وہ محافظ مجھے خطرے کی حدود سے باہر تک چھوڑ کر واپس ہوئے
علاہ شامی نے ہندوستان میں پانی پت ، علی گڑھ، آگرہ، لکھنؤ، بریلی شریف، اجمیر شریف، پیلی بھیت، رامپور، ٹونک، بھوپال، کاشی، بنارس، بمبنئی، کلکتہ، رنگون، حیدرآباد دکن، کشمیر، لاہور اور سندھ و بلوچستان کی خوب سیاحت کی۔ چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں بھی گئے ہندوستان کا کونہ کونہ اور چپہ چپہ آپ کے قدوم میمنت لزوم سے مفتخر ہوا ہے۔ کشمیر میں قیام دوسال رہا۔ سندھ میں آپ نے اکثر علماء اور بزرگوں سے ملاقاتیں کیں۔ ہندوستان میں بریلی شریف میں اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ سے بھی ملاقات کی۔ لکھنؤ ، حیدرآباد دکن، مدراس اور جونا گڑھ کے اکثر علماء اور حکماء سے ملے اور اکثر علماء ، نواب اور رئیس آپ سے بیعت ہوئے جن کے نام تحریر کئے جائیں تو الگ ایک ضخیم کتاب بن جائے۔
گستاخ رسول سے نفرت:
ایک بار آپ سندھ میں تھے کہ کسی بد نصیب نے حضور پر نور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان مبار میں گستاخی کردی۔ آپ جلال میں آگئے۔ اس قدر طیش میں آئے کہ کسی کو بھی آپ کے سامنے بولنے کی مجال نہیں تھی۔ حتیٰ کے نماز مغرب کا وقت ہوگیا۔ آپ اسی حالت میں اٹھے اور وضو کرنے لگے۔ قریب ہی قاضی عزیز اللہ ھکڑو (ساکن بٹھی بہرام تحصیل میرو خان ضلع لاڑکانہ) کھڑے ہوئے تھے۔ ان کے دل میں خیال آیا کہ حضور اتنے خفا ہوگئے ہیں ہم نے یہ نئی بات دیکھی ہے۔ درویش میں اتنا غصہ تو نہیں ہونا چاہئے۔ آپ نے (دل کی بات جان لی) وضو کرتے ہوئے قاضی صاحب سے فرمایا: ’’قاضی صاحب! ہم شان رسول ﷺ میں گستاخی کا کوئی لفط نہیں سن سسکتے ۔ اسلئے ہم اپنی عقیدت اور طبیعت سے مجبور ہیں‘‘ یہ سن کر قاضی صاحب حیرت میں پڑ گئے اور خاموش ہوگئے۔ (تذکرہ شامی ص۸۱)
علماء سندھ کی عقیدت:
علامہ شامی کے خلیفہ احمد یار خان رقمطراز ہیں: حضرت خواجہ غلام صدیق اور ان کے بڑے بھائی استاد العلماء حضرت مولانا گل محمد شہداد کوٹی آپ سے بہت متاثر تھے۔ خواجہ غلام صدیق شہداد کوٹی سندھ کے معروف بزرگ اور صاحب کرامت شخصیت ہیں۔ آپ کے علم اور بزرگی کی بڑی شہرت ہے۔ اب بھی آپ کا مزار شہدادکوٹ (لاڑکانہ) میں مرکز فیوضات اور مرجع خلائق ہے۔ انہیں حضرت شامی سے سے بے حد عقیدت تھی ان سے حضرت شامی نے سندھ کے دیگر بزرگوں سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے حضرت شامی کو حضرت علامہ مفتی عبدالغفور ہمایونی کے بارے میں بتایا اور ایک تعارفی خط علامہ ہمایونی صاحب کے نام تحریر فرمایا جس میں شامی صاحب کے بارے میں اپنے حسن اعتقاد کا اظہار کیا۔ علامہ ہمایونی نہ صرف عالم، حکیم، فقیہ اور مفتی تھے بلکہ سندھ کے معروف صوفیہ میں بھی ان کا شمار ہوتا ہے۔ (تذکرہ شامی ص۶)
سندھ میں مریدین:
آپ کے مریدین لاکھوں تھے،پیران عظام ، علماء کرام، نواب ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، بیرسٹر اور اہل علم و فضل کی کثیر تعداد حلقہ ارادت میں تھی۔ نواب آف جونا گڑھ ، نواب مہابت خان جی بہادر ، نواب بالا سندر، نظام میر عثمان علی خان والی دکن وغیرہ آپ کے مریدوں میں سے تھے۔
نامور حکیم محمد اجمل خان دہلوی آپ کے عقیدت مندوں میں تھا۔ مولانا شوکت علی و مولانا محمد علی جو ہر دعا کیلئے حاضر ہوتے تھے۔
آپ کے مریدوں میں سے سندھ کی نامور شخصیات درج ذیل ہیں:
٭ پیر سید تراب علی شاہ راشدی قمبر علی خان ضلع لاڑکانہ
٭ حکیم پیر سید عبدالغفار شاہ راشدی گوٹھ ریلن نزد لاڑکانہ مدفون ملیر کراچی
٭ حکیم یر سید علی قطب شاہ راشدی بن عبدالغفار شاہ
٭ پیر سید علی انور شاہ راشدی درگاہ پیر جو گوٹھ قمر روڈ لاڑکانہ
٭ پیر سید میر مصطفی شاہ راشدی بن سید علی انور شاہ قمر روڈ
٭ پیر سید فتح الدین شاہ راشدی درگاہ ٹھلاء شریف
٭ پیر سید ہدایت اللہ شاہ راشدی (والد سید نبی بخش شاہ راشدی آف کنگری)
٭ مولانا پیر سید نجی اللہ شاہ راشدی نزد وگن
٭ مولانا قاضی عزیز اللہ ہکڑو ضلع لاڑکانہ
خلیفہ احمد یار رقمطراز ہیں: ’’ کسی کو آج تک یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ حضرت قبلہ کے احوال قلم بند کرتا۔ اس سلسلے میں پیر سید عبدالغفار شاہ قابل مبارکباد ہیں جنہوں نے مجھ نا چیز (احمد یار) کو حضور کے حالات قلم بند کرنے پر مجبور کیا اور یہ سعادت میرے حصے میں آئی۔ پیر سید عبدالغفار شاہ راشدی نے اپنے پیر و مرشد کی وہ خدمت کی ہے جو ہر مرید پر فرض ہے۔‘‘
وصال:
علامہ شامی آخر عمر میں اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ’’۱۹۳۳ء کا سال آپ کیلئے تکلیف دہ ہوگا۔‘‘ اس پیشگوئی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ۲۷ ستمبر ۱۹۳۳ئ/۱۳۵۲ھ بروز بدھ بمبئی شہر (انڈیا) میں آپ نے اس عالم فانی سے عالم جاودانی کی طرف انتقال فرمایا۔ بمبئی میں آپ کو پریل کے ہسپتال کے قریب پھوٹی واڑھ کے گورستان میں سپرد خاک کیا گیا، جہاں بہت سے اولیاء اللہ کے مزارات ہیں۔
(ماخوذ: تذکرہ سید احمد خالد شامی، مطبوعہ ۱۹۹۹ئ)
حضرت مولانا پیر سید احمد خالد شامی
سید حمد بن سید خالد طرالبس (شام) میں تولد ہوئے۔ والدہ محترمہ کا تعلق کرد گھرانے سے تھا اور ان کا سلسلہ نسب شاہ بربر سے جاکر ملتا ہے۔ آپ کے ماموں محترم ملک شام میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ مولانا نجم الدین صاحب بتاتے ہیں کہ مفتی اعظم شام علامہ سید محمد امین بن عابدین علیہ الرحمۃ (صاحب ردالمحتار) مولانا سید احمد خالد شامی کے نانا کے بھائی تھے۔ (اینٹر ویو الراشد صفر ۱۳۹۷ھ)
مولانا سید احمد خالد شامی عالمی مبلغ اہلسنت تھے، جہاں بھی پہنچے شریعت و طریقت کی تبلیغ کی، بے شمار نفوس ان کی صحبت سے مستفیض ہو کر مسلک حقہ پر کار بن دہو کر نیکیاں کماتے رہے۔ مولانا کو سندھ سے ایک خاص لگن تھییہاں ان کا حلقہ بھی وسیع تھا۔ خلیفہ احمد یار خان پٹھان نے ان کا تذکرہ لکھا جو کہ شہداد کوٹ (سندھ) میں مدفون ہیں۔
تعلیم و تربیت:
آپ نے تحصیل علم کے بارے میں خود فرمایا: میں نے ظاہری علوم کمسنی میں ہی حاصل کرلئے تھے اور باطنی علوم کی تعلیم اپنے والد بزرگوار حضرت سید خالد علیہ الرحمۃسے حاصل کی۔ آپ فرماتے ہیں کہ جس وقت مجھے تمام علوم حاصل ہوگئے اور میری دستار بندی کا وقت آیا تو میرے والد بزرگوار نے بڑے جلسے کا اہتمام کیا، جس میں قرب و جوار کے تمام علمائے کرام اور اکثر صاحب دل بزرگ تشریف لائے اور جب رسم دستار فضیلت مکمل ہو چکی تو تمام بزرگوں نے میرے والد محترم کو مبارکباد دی۔ تو وہ آبدیدہ ہوگئے اور پھر اس قدر روئے کہ ہچکی بندھ گئی۔ اس واقعے سے جلسہ میں شامل تمام افراد پریشان ہوئے اور اکثر احباب نے ان سے رونے کا سبب دریافت کیااور کہا کہ آج تو آپ کو خوش ہونا چاہئے کہ اتنی کمسنی میں آپ کے فرزند کو کمال حاصل ہوا۔ جس کی مچٓس اس دور میں ملنا محال ہے ۔ آپ کے والد محترم نے ایک سر آہ بھری اور فرمایا کہ آپ حضرات کا فرمانا بجا ہے کہ آج مجھے خوش ہونا چاہئے اور میں خوش ہوں۔
مگر ایک دوسری حقیقت ہے جسے آپ لوگ شاید نہیں جانتے اور مجھے مجبوراً ظاہر کرنی پڑ رہی ہے وہ یہ کہ آج سے میری نسل منقطع ہوگئی ہے اور اس فرزند کے بعد میری نسل ختم ہے کیونکہ یہ فرزند زندگی بھر شادی نہیں کرے گا مجرد رہے گا۔ خدا وند کریم اسے استقامت عطا فرمائے اور اپنے رحم وکرم سے اس کو تمام خطرات سے محفوظ رکھے۔ (آمین)
اس کے بعد اپنے بیٹے کو آغوش میں لے لیا اور بہت دیر تک خدا وند کریم کے حضور دعائیں کرتے رہے اور پھر کچھ دیر کے بعد بیٹے کو علیحدہ کرکے فرمایا : ’’مبارک ہو خداوند کریم نے تمہیں قبول فرمایا۔‘‘
بیعت:
معلوم ہوتا ہے کہ علامہ شامی علوم لدنی سے سرفراز تھے اور پیدائشی ولی تھے، آپ کی بیعت کے متعلق کتاب میں وضاحت نہیں لیکن معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے والد ماجد سے بیعت اور ان کے جانشین جسمانی و روحانی تھے۔
درس و تدریس:
ایک دن آپ نے علم کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ علم وہ چیز ہے جو انسان کو صحیح معنوں میں انسان بنا دیتا ہے اور پھر اس ضمن میں ایک واقعہ سنایا کہ جب میں ہندوستان آیا تو پہلے شہر پانی پت میں گیا۔ میرے ساتھ میرا ایک ملازم شیدی تھا۔ وہاں ہم ایک بڑی درسگاہ میں گئے دیکھا کہ صدر مددس طلباء کو پڑھا رہے ہیں میں نے سلام مسنون کیا مگر مولوی صاحب نے کوئی جواب نہ دیا اور نہ میری طرف متوجہ ہوئے ۔ میں وہیں بیٹھ گیا جہاں طلباء کی جوتیاں پڑی ہوئی تھیں۔ اس ذلت پر میرے ساتھی کو بہت غصہ آیا لیکن میں نے اسے خاموش رہنے کی ہدایت کی۔ مولوی صاحب تقریباً ایک تھنٹہ تک درس و تدریس میں مشغول رہے۔ اس دوران ایک طالب علم نے ان مولوی صاحب سے کوئی سوال سمجھنے کی کوشش کی مگر وہ سمجھا نہ سکے اسلئے بات کو ٹال دیا۔ جب وہ طالب علم چلا گیا تو مولوی صاحب میری طرف متوجہ ہوئے اور میرا تعارف کرنے کیلئے معمولی الفاظ استعمال کرتے ہوئے پوچھا کہ ’’عرب صاحب خوش ہو کیسے آئے ہو؟‘‘ میں نے جوا بدی اکہ خدا شکر ہے، آپ کے دیدار کیلئے آیا ہوں۔ مولوی صاحب نے دریافت کیا کہ کچھ پڑھے ہوئے بھی ہو ۔ میں نے اثبات میں جواب دیا، اس کے بعد مولوی صاحب نے تمام علوم کے نام لے کر پوچھتے رہے کہ فلاں فلاں علم پرھا، میں جواب دیتا رہا کہ ہاں تھوڑا تھوڑا پڑھا ہے۔ پھر مولوی صاحب نے پوچھا کہ ابھی ایک طالب علم جو ہم سے بحث کر رہا تھا آپ اسے سمجھا سکتے ہیں۔ میں نے جواب دیا فضل خدا اچھی طرح سمجھا سکتا ہوں۔ اگر آپ فرمائیں تو فلسفہ و منطق کے اصول سے یا قرآن و حدیث سے اس مسئلہ کو بخوبی حل کر سکتا ہوں۔ اتنے میں مدرسہ کے دیگر مدرسین اور طالب علم بھی جمع ہوگئے۔ میں نے اٹھ کر قرآن حکیم کی وہ آیت تلاوت کی جو اس بحث کو ختم کرنے والی تھی۔ مولوی صاحب سن کر بہت خوش ہوئے اور مجھ کو تعظیم دے کر اپنے پاس آنے کیلئے فرمایا اور خود مؤدب کھڑے ہوگئے۔ اس کے جواب میں میں نے مولوی صاحب کو لاپرواہی برتنے کے بارے میں سخت الفاظ کہے اور اٹھ کر مسجد سے باہر جانے لگا مولوی صاحب آکر میرے قدموں میں گر گئے اور معافی کے خواستگار ہوئے اور مجھے لے جا کر اپنی مسند خاص پر بٹھایا اور خود میرے سامنے دو زانوں با ادب بیٹھ رہے پھر اسی مولوی صاحب نے چھ ماہ تک مجھ سے تعلیم حاصل کی۔
سفر حرمین شریفین:
والدمحترم کی وفات حسرت آیا کے کچھ ہی عرصہ کے بعد آپ کی والدہ ماجدہ کا بھی وصال ہوگیا۔ والدین کی مفارقت کا انہیں بہت صدمہ تھا تاہم کچھ عرصہ کے بعد آپ نے زیارت حرمین شریفین کیلئے سفر حج کا ارادہ کیا اور حج کی سعادت سے مشرف ہوئے اور مدینہ منورہ میں حضور پر نور ﷺ کے روضہ اقدس پر حاضری و زیارت کی سعادت سے لطف اندوز اور روحانی بالیدگی پائی۔
تبلیغی دورہ:
علامہ شامی حج کرنے کے بعد واپس اپنے وطن طرابلس نہیں گئے بلکہ دنیا کے سفر پر چل نکلے اور عربستان، مصر، ترکی، ایران اور افغانستان سے ہوتے ہوئے ہندوستان پہنچے۔ دوران سفر ہر جگہ علماء و مشائخ طریقت سے ملتے رہے۔ ترکستان میں عبدالحمید شاہ ترک کے مہمان رہے۔ مصر میں جامعۃ الازہر (قاہرہ) کے علماء سے ملاقاتیں کیں۔ ایران میں جید علماء سے ملے ان کے نام اکثر آپ لیا کرتے تھے۔
آپ نے مسقط کے قیام کا ایک واقعہ سنایا کہ میں وہاں ایک رئیس حاکم کا مہمان تھا جو کہ ’’شیعہ مذہب‘‘ کا پیروکار تھا۔ برے بڑے مجتہد وہاں اکٹھے تھے۔ یہ لوگ سیدوں کی بہت عزت کرتے ہیں۔ مجھ سے بھی انہوں نے ملاقات کی اور علمی گفتگو رہی خدا کے فضل سے مجھے علمی لحاظ سے بھی انہوں نے بہتر پایا اور سید ہونے کی بناء پر بھی عزت کی اور یہ گمان کرنے لگے کہ شاید میں بھی شیعہ ہوں۔
آخر انہوں نے میرے مذہب کے بارے میں جستجو شروع کردی مگر میں بات ٹال دیتا اور کوئی دوسرا موضوع چھیڑ دیتا۔ ایک روز دربار میں بہت سے مجتہد جمع تھے اور میرا میزبان رئیس بھی وہاں موجود تھا۔ وہاں ایک بحث جو ایک گھنٹہ جاری رہی میں نے انہیں قائل کرلیا اور پھر کھڑے ہو کر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بیان کی اور اس کے بعد اپنا عقیدہ ظاہر کرکے صحابہ کرام رضوان للہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی تعریف و توصیف بیان کی ۔ بس پھر کیا تھا انہوں نے تلواریں میان سے نکال لیں اور مجھ پر حملہ آور ہوئے۔
لیکن اللہ تعالیٰ نے میری مدد فرمائی کہ ان کا رئیس اٹھ کر درمیان میں آگیا اور مجھ بچا لیا اور سب مجمع کو چلے جانے کا حکم دیا۔ اس کے بعد وہ رئیس مجھے اپنی قیام گاہ میں لے گیا اور کہا یا بن رسول اللہ! آپ کو خوف نہ ہوا کہ آپ نے ان لوگوں کے سامنے صحابہ کرام کی تعریف کردی۔ میں نے جوا ب میں کہا : ’’حق ظاہر کرنے میں خوف کیا آخر حق حق ہوتا ہے‘‘ وہ سن کر بہت خوش ہوا اور اس روز اس نے کسی اور سے ملاقات نہ کی بلکہ منع کردیا کہ آج کوئی ملنے نہ آئے اور اسی روز رات کو اس نے چار سوار بطور محافظ ہمراہ دے کر اور کچھ تحائف دے کر مجھے رخصت کیا اور کہا اب آپکا یہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ ان چاروں محافظوں کو تاکید کی خبردار! میرے مہمان کو کوئی تکلیف نہ پہنچے، وہ محافظ مجھے خطرے کی حدود سے باہر تک چھوڑ کر واپس ہوئے
علاہ شامی نے ہندوستان میں پانی پت ، علی گڑھ، آگرہ، لکھنؤ، بریلی شریف، اجمیر شریف، پیلی بھیت، رامپور، ٹونک، بھوپال، کاشی، بنارس، بمبنئی، کلکتہ، رنگون، حیدرآباد دکن، کشمیر، لاہور اور سندھ و بلوچستان کی خوب سیاحت کی۔ چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں بھی گئے ہندوستان کا کونہ کونہ اور چپہ چپہ آپ کے قدوم میمنت لزوم سے مفتخر ہوا ہے۔ کشمیر میں قیام دوسال رہا۔ سندھ میں آپ نے اکثر علماء اور بزرگوں سے ملاقاتیں کیں۔ ہندوستان میں بریلی شریف میں اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ سے بھی ملاقات کی۔ لکھنؤ ، حیدرآباد دکن، مدراس اور جونا گڑھ کے اکثر علماء اور حکماء سے ملے اور اکثر علماء ، نواب اور رئیس آپ سے بیعت ہوئے جن کے نام تحریر کئے جائیں تو الگ ایک ضخیم کتاب بن جائے۔
گستاخ رسول سے نفرت:
ایک بار آپ سندھ میں تھے کہ کسی بد نصیب نے حضور پر نور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان مبار میں گستاخی کردی۔ آپ جلال میں آگئے۔ اس قدر طیش میں آئے کہ کسی کو بھی آپ کے سامنے بولنے کی مجال نہیں تھی۔ حتیٰ کے نماز مغرب کا وقت ہوگیا۔ آپ اسی حالت میں اٹھے اور وضو کرنے لگے۔ قریب ہی قاضی عزیز اللہ ھکڑو (ساکن بٹھی بہرام تحصیل میرو خان ضلع لاڑکانہ) کھڑے ہوئے تھے۔ ان کے دل میں خیال آیا کہ حضور اتنے خفا ہوگئے ہیں ہم نے یہ نئی بات دیکھی ہے۔ درویش میں اتنا غصہ تو نہیں ہونا چاہئے۔ آپ نے (دل کی بات جان لی) وضو کرتے ہوئے قاضی صاحب سے فرمایا: ’’قاضی صاحب! ہم شان رسول ﷺ میں گستاخی کا کوئی لفط نہیں سن سسکتے ۔ اسلئے ہم اپنی عقیدت اور طبیعت سے مجبور ہیں‘‘ یہ سن کر قاضی صاحب حیرت میں پڑ گئے اور خاموش ہوگئے۔ (تذکرہ شامی ص۸۱)
علماء سندھ کی عقیدت:
علامہ شامی کے خلیفہ احمد یار خان رقمطراز ہیں: حضرت خواجہ غلام صدیق اور ان کے بڑے بھائی استاد العلماء حضرت مولانا گل محمد شہداد کوٹی آپ سے بہت متاثر تھے۔ خواجہ غلام صدیق شہداد کوٹی سندھ کے معروف بزرگ اور صاحب کرامت شخصیت ہیں۔ آپ کے علم اور بزرگی کی بڑی شہرت ہے۔ اب بھی آپ کا مزار شہدادکوٹ (لاڑکانہ) میں مرکز فیوضات اور مرجع خلائق ہے۔ انہیں حضرت شامی سے سے بے حد عقیدت تھی ان سے حضرت شامی نے سندھ کے دیگر بزرگوں سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے حضرت شامی کو حضرت علامہ مفتی عبدالغفور ہمایونی کے بارے میں بتایا اور ایک تعارفی خط علامہ ہمایونی صاحب کے نام تحریر فرمایا جس میں شامی صاحب کے بارے میں اپنے حسن اعتقاد کا اظہار کیا۔ علامہ ہمایونی نہ صرف عالم، حکیم، فقیہ اور مفتی تھے بلکہ سندھ کے معروف صوفیہ میں بھی ان کا شمار ہوتا ہے۔ (تذکرہ شامی ص۶)
سندھ میں مریدین:
آپ کے مریدین لاکھوں تھے،پیران عظام ، علماء کرام، نواب ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، بیرسٹر اور اہل علم و فضل کی کثیر تعداد حلقہ ارادت میں تھی۔ نواب آف جونا گڑھ ، نواب مہابت خان جی بہادر ، نواب بالا سندر، نظام میر عثمان علی خان والی دکن وغیرہ آپ کے مریدوں میں سے تھے۔
نامور حکیم محمد اجمل خان دہلوی آپ کے عقیدت مندوں میں تھا۔ مولانا شوکت علی و مولانا محمد علی جو ہر دعا کیلئے حاضر ہوتے تھے۔
آپ کے مریدوں میں سے سندھ کی نامور شخصیات درج ذیل ہیں:
٭ پیر سید تراب علی شاہ راشدی قمبر علی خان ضلع لاڑکانہ
٭ حکیم پیر سید عبدالغفار شاہ راشدی گوٹھ ریلن نزد لاڑکانہ مدفون ملیر کراچی
٭ حکیم یر سید علی قطب شاہ راشدی بن عبدالغفار شاہ
٭ پیر سید علی انور شاہ راشدی درگاہ پیر جو گوٹھ قمر روڈ لاڑکانہ
٭ پیر سید میر مصطفی شاہ راشدی بن سید علی انور شاہ قمر روڈ
٭ پیر سید فتح الدین شاہ راشدی درگاہ ٹھلاء شریف
٭ پیر سید ہدایت اللہ شاہ راشدی (والد سید نبی بخش شاہ راشدی آف کنگری)
٭ مولانا پیر سید نجی اللہ شاہ راشدی نزد وگن
٭ مولانا قاضی عزیز اللہ ہکڑو ضلع لاڑکانہ
خلیفہ احمد یار رقمطراز ہیں: ’’ کسی کو آج تک یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ حضرت قبلہ کے احوال قلم بند کرتا۔ اس سلسلے میں پیر سید عبدالغفار شاہ قابل مبارکباد ہیں جنہوں نے مجھ نا چیز (احمد یار) کو حضور کے حالات قلم بند کرنے پر مجبور کیا اور یہ سعادت میرے حصے میں آئی۔ پیر سید عبدالغفار شاہ راشدی نے اپنے پیر و مرشد کی وہ خدمت کی ہے جو ہر مرید پر فرض ہے۔‘‘
وصال:
علامہ شامی آخر عمر میں اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ’’۱۹۳۳ء کا سال آپ کیلئے تکلیف دہ ہوگا۔‘‘ اس پیشگوئی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ۲۷ ستمبر ۱۹۳۳ئ/۱۳۵۲ھ بروز بدھ بمبئی شہر (انڈیا) میں آپ نے اس عالم فانی سے عالم جاودانی کی طرف انتقال فرمایا۔ بمبئی میں آپ کو پریل کے ہسپتال کے قریب پھوٹی واڑھ کے گورستان میں سپرد خاک کیا گیا، جہاں بہت سے اولیاء اللہ کے مزارات ہیں۔
(ماخوذ: تذکرہ سید احمد خالد شامی، مطبوعہ ۱۹۹۹ئ)
حضرت مولانا پیر سید احمد خالد شامی
سید حمد بن سید خالد طرالبس (شام) میں تولد ہوئے۔ والدہ محترمہ کا تعلق کرد گھرانے سے تھا اور ان کا سلسلہ نسب شاہ بربر سے جاکر ملتا ہے۔ آپ کے ماموں محترم ملک شام میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ مولانا نجم الدین صاحب بتاتے ہیں کہ مفتی اعظم شام علامہ سید محمد امین بن عابدین علیہ الرحمۃ (صاحب ردالمحتار) مولانا سید احمد خالد شامی کے نانا کے بھائی تھے۔ (اینٹر ویو الراشد صفر ۱۳۹۷ھ)
مولانا سید احمد خالد شامی عالمی مبلغ اہلسنت تھے، جہاں بھی پہنچے شریعت و طریقت کی تبلیغ کی، بے شمار نفوس ان کی صحبت سے مستفیض ہو کر مسلک حقہ پر کار بن دہو کر نیکیاں کماتے رہے۔ مولانا کو سندھ سے ایک خاص لگن تھییہاں ان کا حلقہ بھی وسیع تھا۔ خلیفہ احمد یار خان پٹھان نے ان کا تذکرہ لکھا جو کہ شہداد کوٹ (سندھ) میں مدفون ہیں۔
تعلیم و تربیت:
آپ نے تحصیل علم کے بارے میں خود فرمایا: میں نے ظاہری علوم کمسنی میں ہی حاصل کرلئے تھے اور باطنی علوم کی تعلیم اپنے والد بزرگوار حضرت سید خالد علیہ الرحمۃسے حاصل کی۔ آپ فرماتے ہیں کہ جس وقت مجھے تمام علوم حاصل ہوگئے اور میری دستار بندی کا وقت آیا تو میرے والد بزرگوار نے بڑے جلسے کا اہتمام کیا، جس میں قرب و جوار کے تمام علمائے کرام اور اکثر صاحب دل بزرگ تشریف لائے اور جب رسم دستار فضیلت مکمل ہو چکی تو تمام بزرگوں نے میرے والد محترم کو مبارکباد دی۔ تو وہ آبدیدہ ہوگئے اور پھر اس قدر روئے کہ ہچکی بندھ گئی۔ اس واقعے سے جلسہ میں شامل تمام افراد پریشان ہوئے اور اکثر احباب نے ان سے رونے کا سبب دریافت کیااور کہا کہ آج تو آپ کو خوش ہونا چاہئے کہ اتنی کمسنی میں آپ کے فرزند کو کمال حاصل ہوا۔ جس کی مچٓس اس دور میں ملنا محال ہے ۔ آپ کے والد محترم نے ایک سر آہ بھری اور فرمایا کہ آپ حضرات کا فرمانا بجا ہے کہ آج مجھے خوش ہونا چاہئے اور میں خوش ہوں۔
مگر ایک دوسری حقیقت ہے جسے آپ لوگ شاید نہیں جانتے اور مجھے مجبوراً ظاہر کرنی پڑ رہی ہے وہ یہ کہ آج سے میری نسل منقطع ہوگئی ہے اور اس فرزند کے بعد میری نسل ختم ہے کیونکہ یہ فرزند زندگی بھر شادی نہیں کرے گا مجرد رہے گا۔ خدا وند کریم اسے استقامت عطا فرمائے اور اپنے رحم وکرم سے اس کو تمام خطرات سے محفوظ رکھے۔ (آمین)
اس کے بعد اپنے بیٹے کو آغوش میں لے لیا اور بہت دیر تک خدا وند کریم کے حضور دعائیں کرتے رہے اور پھر کچھ دیر کے بعد بیٹے کو علیحدہ کرکے فرمایا : ’’مبارک ہو خداوند کریم نے تمہیں قبول فرمایا۔‘‘
بیعت:
معلوم ہوتا ہے کہ علامہ شامی علوم لدنی سے سرفراز تھے اور پیدائشی ولی تھے، آپ کی بیعت کے متعلق کتاب میں وضاحت نہیں لیکن معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے والد ماجد سے بیعت اور ان کے جانشین جسمانی و روحانی تھے۔
درس و تدریس:
ایک دن آپ نے علم کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ علم وہ چیز ہے جو انسان کو صحیح معنوں میں انسان بنا دیتا ہے اور پھر اس ضمن میں ایک واقعہ سنایا کہ جب میں ہندوستان آیا تو پہلے شہر پانی پت میں گیا۔ میرے ساتھ میرا ایک ملازم شیدی تھا۔ وہاں ہم ایک بڑی درسگاہ میں گئے دیکھا کہ صدر مددس طلباء کو پڑھا رہے ہیں میں نے سلام مسنون کیا مگر مولوی صاحب نے کوئی جواب نہ دیا اور نہ میری طرف متوجہ ہوئے ۔ میں وہیں بیٹھ گیا جہاں طلباء کی جوتیاں پڑی ہوئی تھیں۔ اس ذلت پر میرے ساتھی کو بہت غصہ آیا لیکن میں نے اسے خاموش رہنے کی ہدایت کی۔ مولوی صاحب تقریباً ایک تھنٹہ تک درس و تدریس میں مشغول رہے۔ اس دوران ایک طالب علم نے ان مولوی صاحب سے کوئی سوال سمجھنے کی کوشش کی مگر وہ سمجھا نہ سکے اسلئے بات کو ٹال دیا۔ جب وہ طالب علم چلا گیا تو مولوی صاحب میری طرف متوجہ ہوئے اور میرا تعارف کرنے کیلئے معمولی الفاظ استعمال کرتے ہوئے پوچھا کہ ’’عرب صاحب خوش ہو کیسے آئے ہو؟‘‘ میں نے جوا بدی اکہ خدا شکر ہے، آپ کے دیدار کیلئے آیا ہوں۔ مولوی صاحب نے دریافت کیا کہ کچھ پڑھے ہوئے بھی ہو ۔ میں نے اثبات میں جواب دیا، اس کے بعد مولوی صاحب نے تمام علوم کے نام لے کر پوچھتے رہے کہ فلاں فلاں علم پرھا، میں جواب دیتا رہا کہ ہاں تھوڑا تھوڑا پڑھا ہے۔ پھر مولوی صاحب نے پوچھا کہ ابھی ایک طالب علم جو ہم سے بحث کر رہا تھا آپ اسے سمجھا سکتے ہیں۔ میں نے جواب دیا فضل خدا اچھی طرح سمجھا سکتا ہوں۔ اگر آپ فرمائیں تو فلسفہ و منطق کے اصول سے یا قرآن و حدیث سے اس مسئلہ کو بخوبی حل کر سکتا ہوں۔ اتنے میں مدرسہ کے دیگر مدرسین اور طالب علم بھی جمع ہوگئے۔ میں نے اٹھ کر قرآن حکیم کی وہ آیت تلاوت کی جو اس بحث کو ختم کرنے والی تھی۔ مولوی صاحب سن کر بہت خوش ہوئے اور مجھ کو تعظیم دے کر اپنے پاس آنے کیلئے فرمایا اور خود مؤدب کھڑے ہوگئے۔ اس کے جواب میں میں نے مولوی صاحب کو لاپرواہی برتنے کے بارے میں سخت الفاظ کہے اور اٹھ کر مسجد سے باہر جانے لگا مولوی صاحب آکر میرے قدموں میں گر گئے اور معافی کے خواستگار ہوئے اور مجھے لے جا کر اپنی مسند خاص پر بٹھایا اور خود میرے سامنے دو زانوں با ادب بیٹھ رہے پھر اسی مولوی صاحب نے چھ ماہ تک مجھ سے تعلیم حاصل کی۔
سفر حرمین شریفین:
والدمحترم کی وفات حسرت آیا کے کچھ ہی عرصہ کے بعد آپ کی والدہ ماجدہ کا بھی وصال ہوگیا۔ والدین کی مفارقت کا انہیں بہت صدمہ تھا تاہم کچھ عرصہ کے بعد آپ نے زیارت حرمین شریفین کیلئے سفر حج کا ارادہ کیا اور حج کی سعادت سے مشرف ہوئے اور مدینہ منورہ میں حضور پر نور ﷺ کے روضہ اقدس پر حاضری و زیارت کی سعادت سے لطف اندوز اور روحانی بالیدگی پائی۔
تبلیغی دورہ:
علامہ شامی حج کرنے کے بعد واپس اپنے وطن طرابلس نہیں گئے بلکہ دنیا کے سفر پر چل نکلے اور عربستان، مصر، ترکی، ایران اور افغانستان سے ہوتے ہوئے ہندوستان پہنچے۔ دوران سفر ہر جگہ علماء و مشائخ طریقت سے ملتے رہے۔ ترکستان میں عبدالحمید شاہ ترک کے مہمان رہے۔ مصر میں جامعۃ الازہر (قاہرہ) کے علماء سے ملاقاتیں کیں۔ ایران میں جید علماء سے ملے ان کے نام اکثر آپ لیا کرتے تھے۔
آپ نے مسقط کے قیام کا ایک واقعہ سنایا کہ میں وہاں ایک رئیس حاکم کا مہمان تھا جو کہ ’’شیعہ مذہب‘‘ کا پیروکار تھا۔ برے بڑے مجتہد وہاں اکٹھے تھے۔ یہ لوگ سیدوں کی بہت عزت کرتے ہیں۔ مجھ سے بھی انہوں نے ملاقات کی اور علمی گفتگو رہی خدا کے فضل سے مجھے علمی لحاظ سے بھی انہوں نے بہتر پایا اور سید ہونے کی بناء پر بھی عزت کی اور یہ گمان کرنے لگے کہ شاید میں بھی شیعہ ہوں۔
آخر انہوں نے میرے مذہب کے بارے میں جستجو شروع کردی مگر میں بات ٹال دیتا اور کوئی دوسرا موضوع چھیڑ دیتا۔ ایک روز دربار میں بہت سے مجتہد جمع تھے اور میرا میزبان رئیس بھی وہاں موجود تھا۔ وہاں ایک بحث جو ایک گھنٹہ جاری رہی میں نے انہیں قائل کرلیا اور پھر کھڑے ہو کر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بیان کی اور اس کے بعد اپنا عقیدہ ظاہر کرکے صحابہ کرام رضوان للہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی تعریف و توصیف بیان کی ۔ بس پھر کیا تھا انہوں نے تلواریں میان سے نکال لیں اور مجھ پر حملہ آور ہوئے۔
لیکن اللہ تعالیٰ نے میری مدد فرمائی کہ ان کا رئیس اٹھ کر درمیان میں آگیا اور مجھ بچا لیا اور سب مجمع کو چلے جانے کا حکم دیا۔ اس کے بعد وہ رئیس مجھے اپنی قیام گاہ میں لے گیا اور کہا یا بن رسول اللہ! آپ کو خوف نہ ہوا کہ آپ نے ان لوگوں کے سامنے صحابہ کرام کی تعریف کردی۔ میں نے جوا ب میں کہا : ’’حق ظاہر کرنے میں خوف کیا آخر حق حق ہوتا ہے‘‘ وہ سن کر بہت خوش ہوا اور اس روز اس نے کسی اور سے ملاقات نہ کی بلکہ منع کردیا کہ آج کوئی ملنے نہ آئے اور اسی روز رات کو اس نے چار سوار بطور محافظ ہمراہ دے کر اور کچھ تحائف دے کر مجھے رخصت کیا اور کہا اب آپکا یہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ ان چاروں محافظوں کو تاکید کی خبردار! میرے مہمان کو کوئی تکلیف نہ پہنچے، وہ محافظ مجھے خطرے کی حدود سے باہر تک چھوڑ کر واپس ہوئے
علاہ شامی نے ہندوستان میں پانی پت ، علی گڑھ، آگرہ، لکھنؤ، بریلی شریف، اجمیر شریف، پیلی بھیت، رامپور، ٹونک، بھوپال، کاشی، بنارس، بمبنئی، کلکتہ، رنگون، حیدرآباد دکن، کشمیر، لاہور اور سندھ و بلوچستان کی خوب سیاحت کی۔ چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں بھی گئے ہندوستان کا کونہ کونہ اور چپہ چپہ آپ کے قدوم میمنت لزوم سے مفتخر ہوا ہے۔ کشمیر میں قیام دوسال رہا۔ سندھ میں آپ نے اکثر علماء اور بزرگوں سے ملاقاتیں کیں۔ ہندوستان میں بریلی شریف میں اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ سے بھی ملاقات کی۔ لکھنؤ ، حیدرآباد دکن، مدراس اور جونا گڑھ کے اکثر علماء اور حکماء سے ملے اور اکثر علماء ، نواب اور رئیس آپ سے بیعت ہوئے جن کے نام تحریر کئے جائیں تو الگ ایک ضخیم کتاب بن جائے۔
گستاخ رسول سے نفرت:
ایک بار آپ سندھ میں تھے کہ کسی بد نصیب نے حضور پر نور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان مبار میں گستاخی کردی۔ آپ جلال میں آگئے۔ اس قدر طیش میں آئے کہ کسی کو بھی آپ کے سامنے بولنے کی مجال نہیں تھی۔ حتیٰ کے نماز مغرب کا وقت ہوگیا۔ آپ اسی حالت میں اٹھے اور وضو کرنے لگے۔ قریب ہی قاضی عزیز اللہ ھکڑو (ساکن بٹھی بہرام تحصیل میرو خان ضلع لاڑکانہ) کھڑے ہوئے تھے۔ ان کے دل میں خیال آیا کہ حضور اتنے خفا ہوگئے ہیں ہم نے یہ نئی بات دیکھی ہے۔ درویش میں اتنا غصہ تو نہیں ہونا چاہئے۔ آپ نے (دل کی بات جان لی) وضو کرتے ہوئے قاضی صاحب سے فرمایا: ’’قاضی صاحب! ہم شان رسول ﷺ میں گستاخی کا کوئی لفط نہیں سن سسکتے ۔ اسلئے ہم اپنی عقیدت اور طبیعت سے مجبور ہیں‘‘ یہ سن کر قاضی صاحب حیرت میں پڑ گئے اور خاموش ہوگئے۔ (تذکرہ شامی ص۸۱)
علماء سندھ کی عقیدت:
علامہ شامی کے خلیفہ احمد یار خان رقمطراز ہیں: حضرت خواجہ غلام صدیق اور ان کے بڑے بھائی استاد العلماء حضرت مولانا گل محمد شہداد کوٹی آپ سے بہت متاثر تھے۔ خواجہ غلام صدیق شہداد کوٹی سندھ کے معروف بزرگ اور صاحب کرامت شخصیت ہیں۔ آپ کے علم اور بزرگی کی بڑی شہرت ہے۔ اب بھی آپ کا مزار شہدادکوٹ (لاڑکانہ) میں مرکز فیوضات اور مرجع خلائق ہے۔ انہیں حضرت شامی سے سے بے حد عقیدت تھی ان سے حضرت شامی نے سندھ کے دیگر بزرگوں سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے حضرت شامی کو حضرت علامہ مفتی عبدالغفور ہمایونی کے بارے میں بتایا اور ایک تعارفی خط علامہ ہمایونی صاحب کے نام تحریر فرمایا جس میں شامی صاحب کے بارے میں اپنے حسن اعتقاد کا اظہار کیا۔ علامہ ہمایونی نہ صرف عالم، حکیم، فقیہ اور مفتی تھے بلکہ سندھ کے معروف صوفیہ میں بھی ان کا شمار ہوتا ہے۔ (تذکرہ شامی ص۶)
سندھ میں مریدین:
آپ کے مریدین لاکھوں تھے،پیران عظام ، علماء کرام، نواب ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، بیرسٹر اور اہل علم و فضل کی کثیر تعداد حلقہ ارادت میں تھی۔ نواب آف جونا گڑھ ، نواب مہابت خان جی بہادر ، نواب بالا سندر، نظام میر عثمان علی خان والی دکن وغیرہ آپ کے مریدوں میں سے تھے۔
نامور حکیم محمد اجمل خان دہلوی آپ کے عقیدت مندوں میں تھا۔ مولانا شوکت علی و مولانا محمد علی جو ہر دعا کیلئے حاضر ہوتے تھے۔
آپ کے مریدوں میں سے سندھ کی نامور شخصیات درج ذیل ہیں:
٭ پیر سید تراب علی شاہ راشدی قمبر علی خان ضلع لاڑکانہ
٭ حکیم پیر سید عبدالغفار شاہ راشدی گوٹھ ریلن نزد لاڑکانہ مدفون ملیر کراچی
٭ حکیم یر سید علی قطب شاہ راشدی بن عبدالغفار شاہ
٭ پیر سید علی انور شاہ راشدی درگاہ پیر جو گوٹھ قمر روڈ لاڑکانہ
٭ پیر سید میر مصطفی شاہ راشدی بن سید علی انور شاہ قمر روڈ
٭ پیر سید فتح الدین شاہ راشدی درگاہ ٹھلاء شریف
٭ پیر سید ہدایت اللہ شاہ راشدی (والد سید نبی بخش شاہ راشدی آف کنگری)
٭ مولانا پیر سید نجی اللہ شاہ راشدی نزد وگن
٭ مولانا قاضی عزیز اللہ ہکڑو ضلع لاڑکانہ
خلیفہ احمد یار رقمطراز ہیں: ’’ کسی کو آج تک یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ حضرت قبلہ کے احوال قلم بند کرتا۔ اس سلسلے میں پیر سید عبدالغفار شاہ قابل مبارکباد ہیں جنہوں نے مجھ نا چیز (احمد یار) کو حضور کے حالات قلم بند کرنے پر مجبور کیا اور یہ سعادت میرے حصے میں آئی۔ پیر سید عبدالغفار شاہ راشدی نے اپنے پیر و مرشد کی وہ خدمت کی ہے جو ہر مرید پر فرض ہے۔‘‘
وصال:
علامہ شامی آخر عمر میں اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ’’۱۹۳۳ء کا سال آپ کیلئے تکلیف دہ ہوگا۔‘‘ اس پیشگوئی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ۲۷ ستمبر ۱۹۳۳ئ/۱۳۵۲ھ بروز بدھ بمبئی شہر (انڈیا) میں آپ نے اس عالم فانی سے عالم جاودانی کی طرف انتقال فرمایا۔ بمبئی میں آپ کو پریل کے ہسپتال کے قریب پھوٹی واڑھ کے گورستان میں سپرد خاک کیا گیا، جہاں بہت سے اولیاء اللہ کے مزارات ہیں۔
(ماخوذ: تذکرہ سید احمد خالد شامی، مطبوعہ ۱۹۹۹ئ)
(انوارِعلماءِ اہلسنت سندھ)