الخزاعی: یہ وہی صاحب ہیں، جنہوں نے ابو سفیان کو غزوہ احد کے موقعہ پر دوبارہ مدینے پر حملہ آور ہونے سے روکا تھا۔
عبد اللہ بن عمر نے باسنادہ یونس بن بکیر سے انہوں نے ابن اسحاق سے یہ روایت سُنی کہ عبد اللہ بن ابو بکر بن محمد عمرو بن حزم نے بیان کیا، کہ معبد الخزاعی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حمراء الاسد میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ نبو خزاعہ کے وہ تمام افراد جو مسلمان ہوگئے اور جو ابھی مشرک تھے۔ وہ سب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیر خواہ تھے۔ ان کا میلان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تھا اور وہ آپ سے کوئی بات نہیں چھپاتے تھے۔ معبد جو ابھی تک مشرک تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگے: ’’اے محمد (صلعم) جو تکلیف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو پیش آئی بخدا ہمیں اس سے بڑا دُکھ ہوا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ آپ سے اس بات میں در گُزر کرے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ابھی وہیں قیام پذیر تھے کہ انہوں نے اپنی راہ لی۔ وہ تھوڑی دُور ہی گئے تھے کہ ابو سفیان سے سامنا ہوا۔ وہ روحاء کے مقام پر ٹھہرا ہُوا تھا اور واپس ہوکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ پر حملہ آور ہونا چاہتا تھا۔ جناب معبد کو دیکھ کر کہنے لگا ہم نے مسلمانوں کی سپاہ اور ان کے کمانداروں کی خوب خبر لی، لیکن ہمیں پوری طرح انہیں تہس نہس کر دینا چاہیے تھا۔ ہمارا ارادہ ہے کہ ہم واپس ہوکر ان پر حملہ آور ہوں، تاکہ جو کچھ ہماری دستبرد سے بچ گیا ہے، اسے ٹھکانے لگا دیں۔ جناب معبد نے کہا۔ ’’ابو سفیان! مَیں اسی رات سے آرہا ہوں میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری تیاری کی حالت میں دیکھا ہے۔ ان کے جو ساتھی شریک جنگ نہ ہوسکے تھے۔ ان کے علاوہ اور بھی کافی نفری اسلامی لشکر میں شامل ہوگئی ہے۔ مَیں نے ان میں جو انتقامی جوش و خروش دیکھا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے ارادے بڑے خطر ناک ہیں۔ مَیں نہیں کہہ سکتا کہ اگر ٹکراؤ کی نوبت آگئی تو تمہارا کیا حشر ہوگا۔‘‘
ابو سفیان نے سُن کر کہا، ’’خدا تجھ سے سمجھے، تو کیا کہہ رہا ہے۔‘‘ معبد نے کہا۔ ’’اگر تم نے فوراً یہاں سے کوچ نہ کیا۔ تو تھوڑی سی دیر کے بعد ہی ان کے گھوڑوں کی پیشانی اور گردنیں تمہارے سامنے آجائیں گی۔ دو بارہ حملہ آور ہونے کا خیال جانے دو اور اپنی جانیں بچاؤ۔ مَیں نے مسلمانوں کی تیاری کو دیکھ کر چند اشعار کہے ہیں۔ اگر کہو، تو سنا دوں۔‘‘
کَادَتْ تَھَدُّ مِن الاَصْوَاتِ رَاحِلَتْی
|
|
اذَسَالَتِ الْاَرَضُ بالْجَرَد اِلَا بَابْیل
|
ترجمہ: قریب تھا کہ میری سواری آوازوں سے گھبرا اٹھتی جب زمین پر بے بال گھوڑوں کی وجہ سے طوفان آگیا۔
تَرْدَی بِاسدِ کرَامٍ لَا تَنَابِلۃٍ
|
|
عِنْدَ الّلِقَاءِ وَلَا حَرقٍ مَعَا زِیْل
|
ترجمہ: بہادر اور معزز سردار گھوڑے دوڑاتے پھرتے تھے۔ جو لڑائی میں نہ کمزور تھے اور نہ احمق اور بزدل تھے۔
ان کے علاوہ بھی کچھ اور اشعار بھی تھے۔ ابو سفیان نے شاعر کی تعریف کی۔ ابو عمر نے اس کا ذکر کیا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۸)