بن صبیح بصری: ان سے حسن بصری نے روایت کی۔ ابو موسیٰ نے کتابۃً ابو علی سے انہوں نے ابو نعیم سے، انہوں نے سعد بن صلت سے انہوں نے ابو حنیفہ سے اُنہوں نے منصور بن زاذان سے اُنہوں نے حسن بن معبد سے روایت کی۔ ایک دفعہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا رہےتھے کہ اس اثناء میں ایک اندھا آیا اور وہ ایک گڑھے میں گِر پڑا۔ اس سے کئی لوگ قہقہہ مار کر ہنس پڑے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ختم کی۔ تو فرمایا۔ تم میں سے جو شخص قہقہہ مار کر ہنسا ہے، اسے چاہیے کہ از سر نو وضو کر کے نماز پھر سے ادا کرے۔
اسد بن عمرو نے ابو حنیفہ سے، انہوں نے معبد بن صبیح سے اور مکی نے ابو حنیفہ سے اُنہوں نے معبد ابن ابی معبد الخزاعی سے روایت کی۔ ابو عمر اور ابو موسیٰ نے اس کا ذکر کیا ہے۔ ابن مندہ اور ابو نعیم نے اس کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے معبد بن ابی معبد الخزاعی کا ذکر کیا ہے اور دونوں نے ان سے یہ حدیث روایت کی ہے: اور لکھا ہے کہ جناب معبد نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت دیکھا جب وہ چھوٹے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی تھی۔ ابن مندہ اور ابو نعیم نے یہ بھی لکھا ہے کہ جنابِ معبد نے جابر سے بھی یہ حدیث نقل کی کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ہجرت کی، تو دونوں حضرات ام معبد کے خیمے کے پاس سے گزرے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جنابِ معبد کو جو اس وقت چھوٹے سے تھے، بلایا اور کہا۔ اس بکری کو اُھر لے آؤ۔ اور کوئی برتن بھی۔ اس بچے نے کہا کہ یہ بکری دودھ دینے والی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ لے تو آؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا۔ وہ آرام سے کھڑی ہوگئی۔ تھنوں میں دودھ اُتر آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوہا۔ پھر خود بھی پیا اور حضرت ابوبکر، عامراور معبد بن ابی معبد کو بھی پلایا۔ پھر بکری کو چھوڑ دیا۔
ابو نعیم کہتے ہیں کہ حدیث ضحک فی الصلوۃ کے بعد اسد بن عمرو نے ابو حنیفہ سے بکری والی حدیث روایت کی۔ معبد بن صبیح کہتے ہیں کہ ابو موسیٰ اور تینوں نے اس کا ذکر کیا ہے۔
ابن اثیر کہتے ہیں کہ ابن مندہ نے معبد بن ابی معبد کا ذکر کیا ہے۔ اور ان سے حدیث ’’ضحک فی الصلوٰۃ‘‘ بیان کی ہے۔ ابو نعیمی کی رائے ہے کہ معبد بن ابی معبد اور معبد بن صبیح ایک ہی آدمی ہے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ دونوں ایک ہیں۔ اور دونوں نے اس کا ذکر کیا ہے۔ اس لیے اس کی کوئی وجہ نہیں کہ کیوں ابو موسیٰ نے ان کے باپ کا ذکر کیا ہے۔ واللہ اعلم۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۸)