بن حکم سلمی: مدینہ میں سکونت پذیر رہے۔ خطیب ابو الفضل عبد اللہ بن احمد بن محمد بن عبد القاہر نے باسنادہ ابو داؤد طیالسی سے، انہوں نے حرب بن شداد اور ابان
بن یزید سے، انہوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے۔ انہوں نے ہلال بن ابی میمونہ سے اُنہوں نے عطاء بن یسار سے، انہوں نے معاویہ بن حکم سلمی سے روایت کی کہ وہ حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک آدمی نے دوران نماز میں چھینک ماری اور مَیں نے حسبِ دستور یر حمک اللہ کہہ دیا۔ لوگوں نے مجھے آنکھوں
سے گھورا۔ اس پر مَیں نے کہا۔ میری ماں مرے تم لوگ مجھے کیوں گھور رہے ہو۔ نمازیوں نے اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر مارے تاکہ میں چپ ہوجاؤں۔ جب نماز ختم ہوئی، تو
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں: مَیں نے زندگی بھر ایسا شفیق معلّم نہیں دیکھا۔ نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا مذاق
اُڑایا، نہ مارا پیٹا، نہ بُرا بھلا کہا۔ بلکہ فرمایا۔ کہ نماز میں باتیں کرنا زیب نہیں دیتا۔ کیونکہ نماز نام ہے، تسبیح، تحمید، تکبیر اور قرأتِ قرآن کا۔
معاویہ سے اس کے علاوہ اور کئی احادیث بھی مروی ہیں۔ مالک نے ہلال بن اسامہ سے باسنادہ عمر بن حکم سے روایت کی ہے جو غلط ہے۔ تینوں نے اس کا ذکر کیا ہے۔