سیّدنا معاذ رضی اللہ عنہ
سیّدنا معاذ رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن حارث بن رفاعہ بن حارث بن سواد بن مالک بن غنم بن مالک بن نجار: ان کا عرف ابنِ عفراء تھا۔ عفراء ان کی والدہ کا نام ہے ان کا نسب عفراء بنتِ عبید بن ثعلبہ بن بنو غنم بن مالک بن نجار تھا۔ ابن ہشام اس سلسلے کو یوں بیان کرتے ہیں: معاذ بن حارث بن عفراء بن حارث بن سواد۔ ابنِ اسحاق لکھتے ہیں: معاذ بن حارث بن رفاعہ بن سواد، مگر پہلا درست ہے۔
یہ صاحب انصاری خزرجی، نجار تھے۔ یہ خود اور ان کے دو بھائی عوف اور معوذ عفراء کے بیٹے غزوۂ بدر میں موجود تھے۔ عوف اور معوذ دونوں شہید ہوگئے، مگر معاذ بچ گئے تھے جو بعد کے تمام غزوات میں شریک ہوتے رہے۔
ابو جعفر نے با سنادہ یونس بن بکیر سے انہوں نے ابنِ اسحاق سے بہ سلسلۂ انصاری شرکائے بدر از بنو سواد بن مالک عوف، معوذ، معاذ اور رفاعہ کا جو بنو حارث بن رفاعہ بن سواد سے تھے اور وہ عفراء کے بطن سے تھے۔ ذکر کیا ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ معاذ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد تک زندہ رہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ وہ غزوۂ بدر میں گھائل ہوگئے تھے۔ مدینے واپس آگئے اور فوت ہوگئے۔ بہ قولِ خلیفہ وہ حضرت علی کے زمانے تک زندہ رہے۔ واقدی کی روایت کے مطابق معاذ بن حارث اور رافع بن مالک زرقی ان انصار میں سے ہیں۔ جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر مکے میں ایمان لائے۔ واقدی کے خیال میں معاذ ان آٹھ انصار میں شامل ہیں۔ جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر مکے میں اسلام لائے۔ واقدی لکھتے ہیں کہ انصار کے چھ آدمیوں کا حضور اکرم پر ایمان لانا زیادہ صحیح اور درست قول ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب معاذ بن حارث انصاری اور معمر بن حارث کے درمیان رشتۂ مواخات قائم فرمایا تھا۔
بروایت واقدی معاذ محاربۂ علی و معاویہ میں جو صفین میں ہوا تھا مارے گئے تھے، انہوں نے حضرت علی کا ساتھ دیا تھا۔ نیز جناب معاذ کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ وہ ابو جہل کے قتل میں شریک تھے۔ ابن ابی خیثمہ نے یوسف بن بہلول سے، انہوں نے ابن ادریس سے، انہوں نے ابن اسحاق سے، انہوں نے عبد اللہ بن ابی بکر کے علاوہ ایک اور آدمی سے، انہوں نے ابن عباس سے، انہوں نے معاذ بن عضراء سے سنا کہ انہوں نے قریش کو کسی الجھن پر غور کرتے دیکھا اور ابو جہل اس ہجوم میں موجود تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ابو الحکم (ابو جہل) اس کی طرف نہ جائے، مَیں نے سُنا تو اس پر نظر رکھ لی اور اس کی طرف بڑھنے لگا۔ جو نہی مجھے موقعہ ملا میں نے اس پر حملہ کر کے زبر دست وار کیا۔ اور اس کی نصف پنڈلی کٹ کر علیحدہ ہوگئی۔ اس کے بیٹے عکرمہ نے میرے کندھے پر وار کیا، جس سے بازو کٹ گیا، مگر ایک تسمہ لگا رہ گیا، جو لڑنے میں رکاوٹ بن رہا تھا۔ چونکہ مَیں ایک جنگ لڑ رہا تھا اور کٹا ہوا ہاتھ ساتھ ساتھ گھسٹتا چلا آرہا تھا اور باعث تکلیف تھا۔ اس لیے مَیں نے پاؤں اس پر رکھا اور تلوار سے تسمے کو کاٹ کر پھینک دیا۔ اس حادثے کے بعد معاذ (ایک دست) حضرت عثمان کے عہد تک زندہ رہے۔
ابو عمر کہتے ہیں۔ ابن ابی خیثمہ سے، ابن اسحاق نے اسی طرح روایت کی ہے اور عبد الملک بن ہشام نے زیاد سے، انہوں نے ابنِ اسحاق سے معاذ بن عمرو بن جموح کے لیے بیان کیا ہے، لیکن ان کے مقابلے میں صحیح تر روایت وہ ہے، جو ابو الفرج محمد بن عبد الرحمٰن بن عبد العز اور حسین بن ابی صالح بن فنا خسرو کے علاوہ اور کئی آدمیوں نے باسناد ہم محمد بن اسماعیل سے انہوں نے یعقوب بن ابراہیم الدورقی سے۔ انہوں نے ابن عطیہ سے انہوں نے سلیمان التمیمی سے انہوں نے انس سے روایت کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے دن فرمایا۔ کوئی ہے جو دیکھ آئے کہ ابو جہل پر کیا گزری۔ عبد اللہ بن مسعود گئے۔ دیکھا کہ ابو جہل کو عفراء کے بیٹوں نے زخمی کر دیا ہے اور وہ لاچار ہے۔ انہوں نے پوچھا۔ کیا تم ابو جہل ہو! ابو جہل نے کہا۔ کیا جسے تم نے قتل کیا ہے۔ اس سے بڑھ کر تمہارے پاس کوئی اور آدمی ہے ایک روایت میں ہے کہ جسے اس کی قوم نے قتل کیا ہے۔ ابو مجلز کی روایت میں ہے۔ ابو جہل نے کہا تھا کہ کیا مجھے قتل کرنے والا کوئی گنوار نہیں تھا۔
یحییٰ بن رجاء ثقفی نے باسنادہ ابن ابی عاصم سے، انہوں نے ابوبکر بن ابی شیبہ سے، انہوں نے غندر سے انہوں نے شعبہ سے، انہوں نے سعد بن ابراہیم سے انہوں نے نصر بن عبد الرحمان سے انہوں نے اپنے دادا معاذ قرشی سے روایت کی کہ مَیں معاذ بن عفراء کے ساتھ صبح اور عصر کے بعد گھومتا پھرا اور نماز نہ پڑھی۔ اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہ صبح اور عصر کی نمازوں کے بعد ادائے نماز کی اجازت نہیں ہے، جب تک کہ سورج نکل نہ آئے یا غروب نہ ہوجائے۔
ابن مندہ کہتے ہیں کہ معاذ بن حارث بن رفاعہ بن حارث زرقی (اور جن کی والدہ کا نام عفراء تھا۔ اور جو رافع بن مالک کے ساتھ انصار میں سے پیشتر از ہمہ ایمان لائے تھے) بدر کے دن شہید ہوئے تھے۔ پھر ابن مندہ نے باسنادہ ابن اسحاق سے روایت بیان کی کہ معاذ، معوذ اور عوف جو حارث بن رفاعہ بن حارث بن سواد بن غنم بن مالک بن نجار (جن کی والدہ عفراء تھی) بدر میں قتل ہوئے تھے۔ پھر اسی ترجمہ میں باسنادہ ربیع بنت معوذ سے روایت کی کہ میرے چچا معاذ نے اپنی والدہ عفراء کو کچھ ترو تازہ کھجوریں دے کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا۔ حضور اکرم نے انہیں کچھ زیور عطا فرمائے، جو امیر بحرین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورِ ہدیہ بھیجے تھے۔ تینوں نے اس کا ذکرکیا ہے۔
ابن اثیر لکھتے ہیں کہ ابن مندہ نے جناب معاذ کو زرقی لکھا ہے، جو وہم ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے ان کا جو سلسلۂ نسب بیان کیا جا چُکا ہے۔ وہ اس ادعا کی تردید کرتا ہے۔ نیز اسی ترجمے میں اُن کی وہ روایت بھی ہے جو انہوں نے ابن اسحاق سے بیان کی ہے، ان کے اس قول کی تردید کرتی ہے۔ اسی طرح ان کا قول کہ جناب معاذ غزوۂ بدر میں شہید ہوگئے تھے۔ بھی بے بنیاد ہے۔ نیز انہوں نے خود اپنے اس قول کی تردید ربیع بنتِ معوذ کی یہ روایت بیان کر کےکردی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی والدہ کو وہ زیور بطورِ ہدیہ عطا فرمائے تھے، جو امیر بحرین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روانہ کیے تھے۔ کیونکہ امیر بحرین اور قرب و جوار کے بادشاہوں کی طرف سے حضور کی خدمت میں ہدایا کی ترسیل اس وقت ہوئی تھی۔ جب اسلام پھیل گیا تھا۔ اور بادشاہوں کو قبولِ اسلام کی دعوت دی گئی تھی اور ظاہر ہے کہ یہ واقعات غزوۂ بدر کے کئی برس بعد پیش آئے تھے۔ واللہ اعلم۔