سیّدنا معاذ رضی اللہ عنہ
سیّدنا معاذ رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن جبل بن عمرو بن ادس بن عائذ بن عدی بن کعب بن عمرو بن ادی بن سعد بن علی بن اسد بن ساردہ بن یزید بن جشم بن خزرج انصاری خزرجی، جشمی: اور ادی جوان کی طرف منسوب ہے۔ وہ سلمہ بن سعد کا بھائی ہے اور یہ انصار میں سے وہ قبیلہ ہے جو ان کی طرف منسوب ہے۔ بعض لوگوں نے انہیں بنو سلمہ سے منسوب کیا ہے۔ ابنِ اسحاق کہتے ہیں کہ انہیں بنو مسلمہ سے اس لیے منسوب کیاگیا ہے۔ کیونکہ وہ سہل بن محمد بن جد بن قیس کے اخیانی بھائی تھے اور سہل بنو سلمہ میں سے ہے۔ کلبی کہتا ہے کہ وہ بنوادی سے تھے۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ بنو ادی کا کوئی فردداب باقی نہیں رہا اور انہیں بنو سلمہ سے شمار کیا جاتا ہے اور ان کا جو آخری ایک آدمی بچ گیا تھا۔ اس کا نام عبد الرحمٰن بن معاذ تھا۔ یہ صاحب شام کے علاقے عمواس میں طاعون سے فوت ہوگئے تھے۔ ایک روایت کے مطابق یہ اپنے والد معاذ سے پہلے فوت ہوگئے تھے۔ اس بناء پر آخری آدمی معاذ ہوں گے اور یہی درست بات ہے۔ جناب معاذ کی کنیت عبد الرحمٰن تھی۔ اور معاذ ان ستّر آدمیوں میں سے تھے، جو دوسرے عقبہ کے موقعے پر موجود تھے۔ یہ صاحب تمام غزوات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رکاب میں رہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب معاذ اور عبد اللہ بن مسعود کے درمیان رشتہ مواخات قائم کیا۔ جب انہوں نے اسلام قبول کیا، تو ان کی عمر اٹھارہ برس تھی۔
عبد الوہاب بن ہبتہ اللہ نے باسنادہ عبد اللہ بن احمد سے روایت کی، کہ ان سے ان کے والد نے انہوں نے ابو معاویہ سے، انہوں نے اعمش سے انہوں نے شقیق سے انہوں نے مسروق سے انہوں نے عبد اللہ بن عمر سے روایت کی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم درج ذیل اصحاب سے قرآن پڑھو عبد اللہ بن مسعود، ابی بن کعب، معاذ بن جبل اور سالم مولی ابی حذیفہ۔
اسماعیل وغیرہ نے باسنادہ ہم محمد بن عیسیٰ سے، انہوں نے سفیان بن وکیع سے انہوں نے حمید بن عبد الرحمٰن سے انہوں نے داؤد العطار سے، انہوں نے معمر سے انہوں نے قتادہ سے انہوں نے انس بن مالک سے روایت کی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ابو بکر میری امّت کا وہ آدمی ہے، جو میری اُمّت پر حد درجہ شفیق ہے اور ساری حدیث بیان کی نیز فرمایا۔ معاذ بن جبل حلال و حرام کو بہت اچھی طرح سمجھتا ہے۔
عبد اللہ بن ابو نصر الخطیب نے جعفر بن احمد القاری سے، انہوں نے علی بن محسن سے انہوں نے ابوالحسن بن جعفر بن محمد السمار سے، اُنہوں نے شعیب الحرانی سے، انہوں نے یحییٰ بن عبد اللہ الباہلی سے، انہوں نے سلمہ بن وردان سے روایت کی، کہ انہوں نے انس بن مالک سے سُنا کہ ایک دن معاذ بن جبل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے اُٹھ کر میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ جس شخص نے سچے دل سے خداکی توحید اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کیا، وہ جنّت میں داخل ہوگا۔ مَیں اُسی وقت اُٹھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل سے فرمایا ہے کہ جس شخص نے بھی اشہدان لا الہ الا اللہ واشہدان محمد رسول اللہ صدق دل سے پڑھا۔ وہ بہشت میں داخل ہوگا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ہاں معاذ نے سچ کہا۔ سچ کہا۔ سچ کہا۔
سہل بن ابی خیثمہ نے اپنے باپ سے روایت کی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مہاجرین سے عمر رضی اللہ عنہ، عثمان رضی اللہ عنہ، اور علی رضی اللہ عنہ اور اسی طرح انصار سے بھی تین آدمی ابی بن کعب، معاذ بن جبل اور زید بن ثابت فتوی دیا کرتے تھے۔
جابر بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ معاذ بن جبل، بڑے خوش شکل، خوش اخلاق اور حد درجہ سخی تھے، چنانچہ انہوں نے لوگوں سے اتنا قرض لیا کہ قرض خواہوں سے خرچ ہوکر چھپ گئے۔ ان لوگوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر گزارش کی کہ جناب معاذ کو بلوایا جائے۔ جب وہ حاضر خدمت ہوئے، تو قرض خواہ بھی ساتھ تھے۔ انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! ہمیں ان سے ہمارا قرض دلوائیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جو انہیں معاف کر دے گا، اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے گا۔ چنانچہ کچھ لوگوں نے ان کا قرض معاف کردیا اور کچھ نے انکار کردیا۔ اس پر حضور نے ان کا اثاثہ لے کر قرض خواہوں میں تقسیم کردیا۔ اور اس طرح ہر آدمی کو اس کے قرض کا ۷/۵ حصّہ مل گیا۔ پھر قرض خواہوں سے فرمایا۔ بس اسے ہی غنیمت سمجھو، جو تمہیں مل گیا ہے۔ بعدہٗ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن میں وصولی زکات کا محصل مقرر فر مادیا اور کہا، ہوسکتا ہے کہ اس طرح تمہاری تلافی ہوجائے اور تم باقی ماندہ قرض بھی ادا کرسکو۔ جنابِ معاذ یمن ہی میں مقیم رہے، تا آنکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے۔
ثور بن یزید سے مروی ہے کہ معاذ تہجد کی نماز کے بعد ذیل کی دعا مانگا کرتے تھے اے خدا، آنکھیں سوئی ہوئی ہیں، اور ستارے ٹمٹا رہے اور تو ہی قیوم ہے۔ اے خدا! مَیں طلب جنّت میں سست اور جہنم سے بھاگنے میں کمزور ہوں۔ اے خدا! تو مجھے ایسا راستہ دکھا، جس پر مَیں قیامت تک چلتا رہوں اور تو اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔
جب شام میں طاعون پھیلی۔ تو جناب معاذ نے دُعا کی۔ اے خدا! تو آلِ معاذ کو بھی ان کا حصّہ عطا کر۔ چنانچہ ان کی دو عورتوں پر طاعون کا حملہ ہوا اور وہ دونوں فوت ہوگئیں۔ پھر ان کے بیٹے عبد الرحمٰن پر طاعون کا حملہ ہوا اور وہ بھی فوت ہوگئے۔ اب ان کی باری تھی۔ جب بیماری کی لپیٹ میں آئے تو بے ہوش ہوگئے۔ جب ہوش میں آئے تو کہنے لگے، اے خدا! تو اپنا غم مجھ پر مسلط کردے، تیری عزّت کی قسم، تو جانتا ہے کہ مَیں تیری ذات سے محبت کرتا ہوں۔ اس کے بعد پھر ان پر غشی طاری ہوگئی جب ہوش میں آئے تو پھر وہی بات دھرائی۔
عمر و بن قیس بیان کرتے ہیں، جب معاذ پر سکرات الموت طاری ہوئے۔ تو کہنے لگے۔ دیکھو! کیا صبح ہوگئی ہے، لوگوں نے کہا، نہیں۔ جب آخر کار صبح نمودار ہوئی تو کہنے لگے: مَیں اس رات سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں جس کی صبح جہنّم کی طرف رہ نمائی کرے۔ مَیں موت کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ مَیں اپنے محبوب سے مِلنے والے کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ جو بعد از مدت آرہا ہے۔ اے خدا تُو جانتا ہے، کہ ہمیشہ تجھ سے ڈرتا رہا، لیکن آج میں پُر امید ہوں۔ مَیں دنیا کو اور اس میں زندگی بسر کرنے کو اس لیے پسند نہیں کرتا تھا: کہ نہریں کھودوں گا اور درخت لگاؤں گا۔ بلکہ اس لیے کہ دوپہر کی پیاس اور حالات کی تکلیف برداشت کروں گا اور علما سامنے زانوے تلمذ تہ کروں گا۔ جب تیرا ذکر کیا جائے گا۔
جناب حسن سے مروی ہے کہ جب معاذ پر سکرات موت طاری ہُوئے، تو انہوں نے رونا شروع کردیا۔ لوگوں نے کہا، تم رو رہے ہو، لیکن تم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ انہوں نے جواب دیا، بخدا مَیں اس لیے نہیں رو رہا کہ مَیں مرنے لگا ہوں اور نہ اس لیے کہ دُنیا کو پیچھے چھوڑ رہا ہوں، بلکہ اس لیے کہ اہلِ عالم دو گروہوں میں منقسم ہیں۔ نمعلوم مَیں کس گروہ میں ہوں۔
کہتے ہیں، معاذ ان لوگوں میں شامل تھے، جنہوں نے بنو سلمہ کے بت توڑے تھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ معاذ قیامت کے دن گروہ علما سے اتنا آگے ہوگا، جتنا کہ ایک تیر پر تاب یادو کا فاصلہ۔
فروۃ الاشجعی نے حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت کی کہ انہوں نے معاذ بن جبل کے بارے میں قرآن کی یہ آیت پڑھی: ’’كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ‘‘ ’’كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًا وَ لَمْ یَكُ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ‘‘ میں نے کہا یہ تو خدا نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے، عبد اللہ بن مسعود نے پھر اس آیت کو دہرایا۔ پھر مجھ سے دریافت کیا کہ اُمّہ اور قانت کے کیا معنی ہیں؟ مَیں نے کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ اس پر ابن مسعود نے کہا کہ امّہ اس شخص کو کہتے ہیں جو بھلائی کو سمجھتا ہو اور جس کو مقتدا بنایا جا سکتا ہے۔ قانت: خدا کا ہر حکم ماننے والا۔ اور یہ دونوں اوصاف، معاذ میں پائے جاتے ہیں۔
صحابہ میں سے مندرجہ ذیل نے معاذ بن جبل سے روایت کی: حضرت عمر رضی اللہ عنہ، عبد اللہ بن عمر، اور ابو قتادہ، عبد اللہ بن عمرو، انس بن مالک، ابو امامتہ الباہلی، ابو لیلی الانصاری وغیرہ۔
تابعین میں سے ذیل کے حضرات نے ان سے روایت کی: جنادہ بن ابی امیّہ عبد الرحمان بن غنم۔ ابو ادریس الخولانی۔ ابو مسلم خولانی، جبیر بن نفیر، مالک بن یخامر وغیرہ۔
جناب معاذ نے ۱۸ ہجری یا ۱۷ سال ہجری میں وفات پائی، لیکن پہلی روایت درست ہے اور اس وقت ان کی عمر ۳۸ سال اور ایک روایت کے رو سے ۳۳ یا ۳۴ برس تھی۔ ایک روایت میں ۲۸ برس مذکور ہے لیکن یہ غلط ہے۔ کیونکہ جو شخص بیعت عقبہ میں جو قبل از ہجرت پیش آئی تھی، موجود ہو اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دس سالہ قیامِ مدینہ کو پیشِ نظر رکھا جائے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے آٹھ سال بعد اس کی وفات ہوئی ہو۔ اس طریقے سے بیعتِ عقبہ کے وقت ان کی عمر سولہ سال بنتی ہے۔ جو بعید از قیاس ہے۔ واللہ اعلم۔