الازدی الغامدی: انہیں صحبت میسر آئی۔ یہ شامی شمار ہوتے تھے۔ ان سے ولید بن عبد الرحمن الحرشی نے روایت کی۔
ہمیں یحییٰ بن محمود نے اجازتاً با سنادہ ابن ابی عاصم سے، انہیں ہشام بن خالد نے ولید بن مسلم سے اس نے عبد الغفار بن اسماعیل بن عبید اللہ سے، انہوں نے ولید
بن عبد الرحمٰن جرشی سے، انہوں نے مدرک بن حارث الغامدی سے روایت کی۔ کہ مَیں نے ایک سال اپنے والد کے ساتھ حج کیا۔ ایک دن ہم منی میں تھے کہ وہاں بہت سے لوگ
ایک آدمی کے گرد جمع تھے مَیں نے والد سے اس ہجوم کے بارے میں پوچھا۔ کہا کہ یہ صابی ہے جس نے اپنے باپ دادا کا دین چھوڑ دیا ہے۔ پھر میرا والد اونٹنی پر سوار
ان لوگوں کے پاس جا کھڑا ہوا مَیں بھی اپنی اونٹنی پر وہاں جا کھڑا ہوا۔ وہ لوگ باتیں کرنے کے بعد اسے چھوڑ کر چلے گئے۔ میرا والد وہیں کھڑا رہا تاآنکہ وہ سب
لوگ تھک گئے، دن گرم ہوگیا اور وہ سب رُخصت ہوگئے۔ اس اثناء میں ایک لڑکی ہاتھ میں پانی کا پیالہ لیے آئی جس کا سینہ کُھلا ہوا تھا۔ لوگوں نے کہا یہ لڑکی زینب
نامی، اس کی بیٹی ہے۔ مَیں اس سے حُسن سلوک سے پیش آیا اور وہ رو رہی تھی۔میرے والد نے اس سے کہا، تو اپنی اوڑھنی سےا پنے سینے کو ڈھانپ لے۔ تم اپنے باپ کے بارے
میں پریشان مت ہو۔ اسے نہ دُکھ پہنچے گا نہ ذلّت اور رسوائی ہوگی۔ ابن مندہ اور ابو نعیم نے اس کا ذکر کیا ہے۔ اور ابو موسیٰ نے اس پر استدراک کیا ہے۔ ابن مندہ
نے اختصار سے کام لیا ہے۔ اور اس پر کسی نے استدراک نہیں کیا۔